Inquilab Logo

صحت کی صحتمندانہ فکر

Updated: March 11, 2023, 10:21 AM IST | Mumbai

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جن امراض کی وجہ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھ گیا ہے اُن میں سرطان سرفہرست نہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جن امراض کی وجہ سے ہلاکت کا خطرہ بڑھ گیا ہے اُن میں سرطان سرفہرست نہیں۔ یہ جگہ امراض قلب نے لے لی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صحت کی صحتمندانہ فکر نہیں کی گئی تو ۲۰۳۰ء تک ملک میں ہونے والی ہر چوتھی موت، خدانخواستہ، امراض قلب کے سبب ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قلبی امراض میں نوجوانوں اور درمیانی عمر کے لوگوں کی بڑھتی تعداد تشویش کا باعث بن گئی ہے۔ 
 ماہرین کی یہ تشویش کتنی درست ہے اس سوال پر غور کرتے ہوئے مزید تفصیل حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمشین نے ’’کارڈیو وسکیولر ڈسیز اِن انڈیا‘‘ کے عنوان سے ایک مطالعہ جاری کیا ہے۔ اس میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں کہی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں کہا گیا کہ ہندوستان میں کارڈیو وسکیولر ڈسیز اس حد تک بڑھی ہے کہ اگر مغربی ملک کا کوئی باشندہ اس مرض میں دس سال بعد مبتلا ہوسکتا ہے تو ہندوستانی باشندہ آج ہوسکتا  ہے۔ حال ہی میں کئی مشہور شخصیات کے تعلق سے دورۂ قلب کی خبر ملی یا دورۂ قلب کی وجہ سے موت کی اطلاع۔ ظاہر ہے کہ جو بات ماہرین کہہ رہے ہیں، ہماری آس پاس کی زندگی میں اُس کی توثیق بھی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ 
 اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں صحت کے تعلق سے حساسیت بڑھی ہے، باخبری اور بیداری میں بھی اضافہ ہوا ہے اور فکرمندی میں بھی مگر یہ تبدیلی اُن طبقات میں آئی ہے جنہیں ہم متمول، خوش حال اور تعلیم یافتہ کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ جتنے طبقات ہیں وہ آج بھی اپنے انداز کی زندگی گزار رہے ہیں لہٰذا اُنہیں موٹاپا پریشان کرتا ہے نہ ہی چلنے پھرنے کی دشواری متنبہ کرتی ہے۔ نچلے متوسط اور غریب طبقات کے جن لوگو ںکو ٹو وہیلر کی عادت ہوگئی ہے اُن کا چلنا پھرنا بڑی حد تک چھوٹ چکا ہے۔ بیداری اور حساسیت ان طبقات میں پیدا کی جانی چاہئے جو کل تک جسمانی طور پر کافی سرگرم رہتے تھے، اب وہ بے خیالی اور نادانستگی میں اپنی صحت کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ 
 ایک دوسرا مسئلہ فضائی، آبی اور ماحولیاتی آلودگی کا ہے۔ اس سے صرف امراض قلب کا خطرہ نہیں بڑھتا، اور بھی کئی مسائل لاحق ہوتے ہیں۔ مئی ۲۰۲۲ء کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، جو لانسیٹ (مشہور طبی جریدہ) کے حوالے سے جاری کی گئی،  ۲۰۱۹ء میں ایسے ۲۳؍ لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی جو ابھی مزید جی سکتے تھے مگر آلودگی نے اُنہیں ’’وقت سے پہلے‘‘ رخصت ہونے پر مجبور کردیا۔ اس جریدہ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مذکورہ سال کے دوران ۱۶؍ لاکھ افراد صرف اور صرف فضائی آلودگی کے سبب موت کے دہانے تک پہنچے۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانیوں کی صحت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے عوام کو تو بیدار ہونا ہی پڑے گا، شہری انتظامیہ، ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کو بھی پہلے سے زیادہ ذمہ دارانہ کردار اپنانا ہوگا۔ صحت کی فکر یہ نہیں ہے کہ شہریوں کو بیمہ کمپنیوں کے حوالے کردیا جائے۔ صحت کی فکر یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جن میں آدمی اپنی صحت کی حفاظت میں کامیاب ہوسکے۔ اگر ملک کا ہر شہری صحت کی فکر کرنے لگے تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا مگر شہری انتظامیہ اور ریاستی و مرکزی حکومت جب تک سازگار ماحول کی فکر نہیں کرتے، مسائل حل ہونے کا نام نہیں لیں گے۔ یاد رہنا چاہئے کہ یہ ملی جلی ذمہ داری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK