ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے قبل خیر سگالی کے طور پر کیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اسے امریکہ نے حماس کے الیگزینڈر کو "امریکیوں کیلئے ایک اشارے" کے طور پر رہا کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا ہے اور اس اقدام سے مزید یرغمالیوں کے متعلق مذاکرات کی توقع ہے۔
ایڈن الیگزینڈر۔ تصویر: ایکس
فلسطینی عسکریت گروپ حماس نے اعلان کیا کہ وہ امریکی شہریت رکھنے والے آخری زندہ یرغمالی، اسرائیلی - امریکی ایڈن الیگزینڈر کو جلد رہا کرے گا جو غزہ میں قید ہے۔ یہ فیصلہ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر کیا گیا ہے۔ حماس کا یہ اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے منگل کو مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل سامنے آیا ہے۔ فلسطینی گروپ نے کہا کہ اس کا مقصد انسانی امداد کی ترسیل کیلئے ایک معاہدے کو آسان بنانا ہے۔ الیگزینڈر کی رہائی جنگ بندی معاہدہ تک پہنچنے اور غزہ میں خوراک، ادویات اور دیگر سامان کے داخلہ اجازت دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ گروپ نے کہا کہ وہ جنگ کے خاتمے کیلئے حتمی معاہدے تک پہنچنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے گذشتہ ۷۰ دنوں سے غزہ پٹی کی سخت ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
تل ابیب میں پیدا ہونے والے اور نیو جرسی، امریکہ میں پرورش پانے والے ۲۱ سالہ الیگزینڈر ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حماس کے حملے کے دوران غزہ کی سرحد پر ایک ایلیٹ انفنٹری یونٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے جب انہیں حماس نے یرغمال بنالیا۔ حماس کے ۲۰۲۳ء کے حملے میں یرغمال بنائے گئے ۲۵۱ افراد میں سے ۵۹ اب بھی غزہ میں ہیں جن میں سے ۲۴ کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ غزہ میں موجود ۵ یرغمالیوں کے امریکی شہری ہونے کا اندازہ تھا اور الیگزینڈر کو واحد زندہ یرغمالی سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر بمباری کیلئے اسرائیل نے تجارتی ڈرونز میں تبدیلیاں کرکے ان کا استعمال کیا
امریکہ اور اسرائیل کا ردعمل
صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں الیگزینڈر کی رہائی کی تصدیق کی اور اسے "یادگار خبر" اور "نیک ارادوں سے اٹھایا گیا قدم" قرار دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اسے امریکہ نے حماس کے الیگزینڈر کو "امریکیوں کیلئے ایک اشارے" کے طور پر رہا کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا ہے اور اس اقدام سے مزید یرغمالیوں کے متعلق مذاکرات کی توقع ہے۔ بیان میں نے مزید کہا گیا کہ اسرائیل کی پالیسی کے مطابق، مذاکرات "جنگ کے تمام مقاصد حاصل کرنے کے عزم کی بنیاد پر" ہوگے۔
فیملیز اینڈ مسنگ فیملیز فورم نامی مہم گروپ نے کہا کہ الیگزینڈر کی رہائی دونوں فریقوں کے درمیان"ایک جامع معاہدے کا آغاز ہونا چاہئے جو باقی تمام یرغمالیوں کی آزادی کو یقینی بنائے"۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے "تمام یرغمالیوں کے خاندانوں کو امید دی ہے"۔ گروپ نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ "سب کو واپس لائیں"۔ حماس نے ماضی میں کہا تھا کہ وہ صرف اس معاہدے پر رضامند ہوگا جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو، جسے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے بارہا مسترد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی جارحیت کے سبب ۱۵۰۰؍فلسطینی بینائی سے مکمل طورپر محروم
مذاکرات جاری
متعدد رپورٹس کے مطابق، حماس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ میں نیتن یاہو کے مؤقف پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ایک سینئر حماس عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ فلسطینی گروپ قطر میں امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔ مذاکرات سے واقف ایک سینئر فلسطینی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس کا اعلان ٹرمپ کی آمد سے قبل خیر سگالی کے طور پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیگزینڈر کی رہائی کے عمل کو حتمی شکل دینے کیلئے حماس اور ثالثوں کے درمیان پیر کی صبح ایک اور ملاقات طے ہے جس کیلئے اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں کو عارضی طور پر روکنا اور منتقلی کے دوران فضائی آپریشنز معطل کرنا ضروری ہوگا۔
اسرائیلی وزیراعظم کو اندرون ملک بھی دباؤ کا سامنا ہے اور ان پر جنگ کو سیاسی مقاصد کیلئے طول دینے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ ٹرمپ منگل کو مشرق وسطیٰ پہنچیں گے اور اسرائیل نے عہد کیا ہے کہ اگر ان کے دورے کے اختتام تک کوئی معاہدہ نہ ہوا تو وہ حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کو وسعت دے گا۔ اسرائیلی حکام نے کہا کہ ان کی توسیعی جارحیت کے منصوبوں میں غیر معینہ مدت کیلئے تمام علاقے پر قبضہ کرنا، فلسطینیوں کو زبردستی جنوب کی طرف منتقل کرنا اور اقوام متحدہ اور اس کے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کی مخالفت کے باوجود امداد کی تقسیم کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنا شامل ہے جو امداد کو "ہتھیار بنانے" کا باعث بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی صدر ٹرمپ کا آئندہ ہفتے مشرق وسطیٰ کا اہمیت کا حامل دورہ
غزہ میں انسانی بحران
اسرائیل نے گزشتہ ۷۰ دنوں سے غزہ میں خوراک، ادویات اور دیگر انسانی امدادی سامان کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ امدادی ایجنسیوں نے اسرائیلی اقدام کو بھکمری کی پالیسی قرار دیا ہے جو جنگی جرائم کے دائرے میں آسکتی ہے۔ مارچ کے وسط سے اسرائیل نے غزہ میں فضائی بمباری اور دیگر فوجی آپریشنز دوبارہ شروع کردیئے ہیں جن سے حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق ۲ ہزار ۷۲۰ سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، رواں سال کے آغاز سے بچوں میں شدید غذائی قلت کے تقریباً ۱۰ ہزار معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پٹی میں خوراک کی قیمتیں ۱۴۰۰ فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔