امریکہ نے ۵۹؍ سفید فام جنوبی افریقیوں کو پناہ گزینوں کے طور پر خوش آمدید کہا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انہیں پناہ گزین کا درجہ دیا ہے، جسے انہوں نے ’’نسل کشی‘‘ کا شکار قرار دیا۔
EPAPER
Updated: May 13, 2025, 4:08 PM IST | Washington
امریکہ نے ۵۹؍ سفید فام جنوبی افریقیوں کو پناہ گزینوں کے طور پر خوش آمدید کہا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انہیں پناہ گزین کا درجہ دیا ہے، جسے انہوں نے ’’نسل کشی‘‘ کا شکار قرار دیا۔
امریکہ نے ۵۹؍ سفید فام جنوبی افریقیوں کو پناہ گزینوں کے طور پر خوش آمدید کہا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انہیں پناہ گزین کا درجہ دیا ہے، جسے انہوں نے ’’نسل کشی‘‘ کا شکار قرار دیا۔ واشنگٹن ڈی سی کے باہر ایک ہوائی اڈے کے ہینگر میں دو اہلکاروں نے ان کا استقبال کیا، جہاں اس گروپ میں شامل زیادہ تر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے افرادجن میں چھوٹے بچے اور یہاں تک کہ ایک پاجامے میں ننگے پاؤں چلنے والا بچہ بھی شامل تھا جنہوں نے چھوٹے امریکی پرچم تھام رکھے تھے۔ ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ کرس لینڈاؤ نے جنوبی افریقیوں کو خوش آمدید کہا، جو جوہانسبرگ سے پرواز کے بعد ورجینیا کے ڈولیس ایئرپورٹ پر پہنچے تھے۔کرس لینڈاؤ نے کہا کہ ’’ہم ایک واضح پیغام دے رہے ہیں کہ امریکہ جنوبی افریقہ میں نسل کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ ہونے والے شدید ظلم کو مسترد کرتا ہے۔‘‘
ٹرمپ، جن کے اتحادی ایلون مسک جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے تھے، نے کہا کہ اس ملک میں سفید فام کسان مارے جا رہے ہیں اور انہوں نے ’’نسل کشی‘‘ کے الزام کو دہرایا۔ ٹرمپ نے کہا کہ جنہیں دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے وہ ’’سفید فام ہیں، لیکن چاہے وہ سفید ہوں یا سیاہ، میرے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘تاہم جنوبی افریقی صدر سائریل رامافوسا نے افریقیوں کے ظلم کا شکار ہونے کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں ٹرمپ کو بتایا کہ انہیں جو معلومات دی جا رہی ہیں وہ سچ نہیں ہیں۔رامافوسا نے کہا، ’’پناہ گزین وہ شخص ہے جو سیاسی، مذہبی یا معاشی ظلم کے خوف سے اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو۔ اور یہ لوگ اس زمرے میں نہیں آتے۔‘‘جنوبی افریقی وزیر خارجہ رونالڈ لامولا نے بھی افریکن کے ظلم یا قتل کے نشانہ بننے کے دعووں کو مسترد کر دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنوبی افریقہ میں قتل کے زیادہ تر شہری علاقوں کے نوجوان سیاہ فام مرد ہیں۔ امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط کے تحت، امریکہ میں دوبارہ آباد ہونے کے خواہشمند افراد یا تو افریکانر نسل سے تعلق رکھتے ہوں یا جنوبی افریقہ میں نسلی اقلیت کے رکن ہوں۔ انہیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ انہیں ماضی میں ظلم کا سامنا رہا ہے یا مستقبل میں اس کا خوف ہے۔ ٹرمپ اور مسک نے جنوبی افریقہ کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس سال نافذ کیے گئے ایک متنازعہ زمین ضبطی قانون کے ذریعےسفید فام افریقیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
دریں اثناء کئ مبصروں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اب فرار ہوئے ہیں، شاید مالی وجوہات یا ایک ایسی معاشرے میں رہنے کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ہجرت کر گئے ہیں جہاں سفید فام اب بالادست نہیں ہیں۔واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کی ۷؍ اعشاریہ ۳؍ فیصد سفید فام آبادی عام طور پر سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں اعلیٰ معیار زندگی رکھتی ہے۔ وہ اب بھی دو تہائی زرعی زمین کے مالک ہیں اور اوسطاً سیاہ فام جنوبی افریقیوں سے تین گنا زیادہ کماتے ہیں۔ بنیادی طور پر افریکا نرز کی قیادت والی حکومتوں نے نسلی بنیاد پرجبر کا نظام نافذ کیا، جس نے سیاہ فام افراد کو سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا، یہاں تک کہ۱۹۹۴ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔