Inquilab Logo

گاؤں کی رسموں سے سالگرہ تک کا سفر

Updated: January 31, 2024, 1:58 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

اس سفر میں گاؤں والوں نے بہت کچھ کھو دیا ہے، ان کی روایتیں کمزور ہوئی ہیں مثلاًنومولود کے دانت نکلنے پر اب بَینا بانٹنے اور مٹھائی کی تقسیم کا رواج نہیں ہے ، ایسی بہت سی روایات کا وجود خطرے میں ہے۔

Now a birthday seems incomplete without a cake. Not only this, the "birthday table" is also decorated with various dishes. Photo: INN
اب ’’کیک‘‘ کے بغیر سالگرہ ادھوری معلوم ہونے لگی ہے۔ یہی نہیں مختلف پکوانوں کے ذریعے ’’برتھ ڈے ٹیبل‘‘ بھی سجایا جاتا ہے۔تصویر : آئی این این

ابھی دس بیس سال پہلے ہی کا قصہ ہے، گاؤں میں ہندو مسلم سکھ عیسائی کوئی بھی سالگرہ نہیں مناتا تھا۔ پیدائش یا شادی بیاہ کی سالگرہ منانے کا کوئی تصور نہیں تھا، شہر سے گاؤں کا رخ کرنے والے بھی اپنے بچوں کی سالگرہ کا ذکر تک نہیں کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی اور نقطۂ نظر سے سالگرہ کا بائیکاٹ کرتے تھے یا نظر انداز کرتے تھے بلکہ یہ گاؤں کے کلچر کا حصہ ہی نہیں تھا، اس لئے نہ تو کسی نے شادی کی سالگرہ پر جشن منایا نہ ہی پیدائش کی سالگرہ پر کیک کاٹا، حالانکہ اس زمانے میں بھی لوگ فلموں میں سالگرہ منانے کے مناظر دیکھتے تھے لیکن اس دور کا پورا گاؤں خالص ہوتا تھا، تہذیب و ثقافت بھی خالص تھی، پکوان بھی خالص ہوتے تھے، گاؤں ملاوٹ سے محفوظ تھا، کسی اورکلچر کا سایہ بھی نہیں پڑا تھا۔ گاؤں والے پرائے رسم ورواج کو مشکل سے اپناتے تھے۔ اپنی تہذیب اور کلچر کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ دیہات کے رسم و رواج کسی بھی صورت میں بھولتے نہیں تھے اور کسی کو بھولنے نہیں دیتے تھے، اسی لئےسالگرہ کے بجائے اپنی رسموں کو جو برسہا برس سے رائج تھیں، جی جان سے مناتے تھے، انہیں پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ 
 اس دور میں شادی بیاہ، موت اور حیات کی بہت سی رسمیں تھیں اور آج بھی ہیں۔ مثلاً نومولود کے دانت نکلنے کی ایک رسم ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہےکہ بچے کا دانت نکلتا ہے تو اس کے ننھیال سے میٹھا آتا ہے، پوروانچل میں دانت نکلنے پر آج بھی ’جاور‘(میٹھا چاول اور دودھ) اور گلاب جامن بھیجنے کی روایت باقی ہے۔ یہ سب اپنے ہاتھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ ۲۰؍ سال پہلے تک دانت نکلنے پر میٹھا بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا تھا، اس میں میٹھے سے زیادہ خلوص کی مٹھاس ہوتی تھی، اپنائیت کی چاشنی ہوتی تھی، گھر کی عورتوں کی محنت اور لگن شامل ہوتی تھی۔ ناتی اور نتنی (نواسے یا نواسی) کے دانت نکلنے کی خبر سنتے ہی نانی اماں پھولے نہیں سماتی تھیں۔ بیٹی کے گھر مٹھائی بھیجنے کی تیاری میں لگ جاتی تھیں، گھر کی دیگر خواتین سے مشورہ کرکے منصوبے بناتی تھیں۔ گرمی ہو، بہار ہو یا برسات، بڑی بوڑھیوں کی رہنمائی میں گھر کی عورتیں چولہہ(مٹی کے چولہے)پر میٹھا بناتی تھیں۔ محلے پڑوس والیاں بھی ہاتھ بٹاتی تھیں۔ محلے پڑوس کو بھی خبر ہو جاتی تھی کہ فلاں کے نواسے یا نواسی کا دانت نکل رہا ہے۔ اس کے بعد بیٹی کے گھر ’بینا‘ بانٹا جاتا تھا۔ یعنی میٹھا تقسیم کیا جاتا تھا۔ عام طور پر بینا تقسیم کرنے کی ذمہ داری ایک مخصوص طبقے کی تھی۔ ان کی عورتیں جس گھر بینا لے کر جاتی تھیں، پہلا سوال یہی داغا جاتا تھا، ’’ کے کے گھر کا بینا ہے۔ ‘‘ (کس کے گھر کا بینا ہے؟) جواب ملتا تھا، ’’فلانے کے گھر کا ہے، ان کے پتوا یا پتیا کے کے دانت نکرا ہے۔ ‘‘ (فلاں کے گھر کا ہے، ان کے پوتے یا پوتی کو دانت نکلاہے)۔ سی بی آئی ٹائپ بوڑھیاں ایک آدھ سوال پر اکتفا نہ کرتیں بلکہ مزید سوال داغتیں، مثلاً یہ پوچھتیں کہ کون سے پوتے یا پوتی کو دانت نکلا ہے؟ ننھیال سے بینا کب آیا ہے؟ صبح یا شام کو؟ کچھ اور بھی تھا یا یہی بس یہی آیا ہے؟ 
 بات یہیں ختم نہیں ہوتی، پھر جس کے بیٹے اور بیٹی کو دانت نکلتا، اس کے دوستوں کاگروپ گھر کے باہر جمع ہوجاتا تھا اور اپنا حصہ مانگتا تھا۔ اس طرح وہاں پورے دن چہل پہل رہتی تھی۔ اسی طرح شادی سے پہلے ابٹن لگانے کی رسم ہے۔ شادی سے چند دن پہلے گیت گانے کی رسم ہے، شادی کا سہرا لکھنے اور اسے گانے کی روایت رہی ہے۔ شادی ہی کی بہت سی رسمیں ہیں۔ بچے کی پیدائش پر خوشی منانے کے بہت سے طریقے ہیں، ہر سماج کا اپنا طریقہ ہے۔ وقت نے گاؤں کے رسم و رواج کو کمزور کردیا ہے، اب دانت نکلنے کے رسم و رواج میں کم ہی لوگ دلچسپی لیتے ہیں، شادی بیاہ کی تمام رسموں کا وجود خطرے میں ہے، ان کے مٹنے کا ڈر ہے۔ ان کی جگہ گاؤں والے سالگرہ منانے لگے ہیں۔ ابھی گاؤں کے کچھ لوگ اس سے محفوظ ہیں مگر کب تک؟ کیونکہ اب سالگرہ منانے کیلئے ہوٹل بک کرنا بھی عام رجحان بن گیا ہے۔ بیکری پر کیک بھی بک رہے ہیں، کیک کی بڑی بڑی دکانیں بھی کھل گئی ہیں۔ اپنی حیثیت کے اعتبار سے سالگرہ پر پُرتکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا جانے لگا ہے، ڈھابے بھی آباد ہونے لگے ہیں۔ ایک زمانے تک شادی یا پیدائش کی سالگرہ آتی تھی اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ سب اپنی دھن میں مست رہتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں ریکارڈ رکھنے کا چلن نہیں تھا۔ شادی، پیدائش اور موت کی تاریخ کیلنڈر پر لکھی جاتی تھی۔ جو لکھنا نہیں جانتا تھا، وہ دوسروں سے لکھواتا تھا۔ شادی کی سالگرہ پر میاں بیوی تنہائی میں بھلے ہی کچھ کہتے سنتے رہے ہوں مگر کمرے سے باہر اس پر کچھ نہیں کہاجاتا تھا۔ کوئی مبارکباد بھی نہیں دیتا تھا بلکہ اسے خاص موقع بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب نئے دور میں کوئی سامنے سے مبارکباد دے یا نہ دے، شادی کی سالگرہ پر وہاٹس ایپ سے کوئی نہ کوئی میسیج آہی جاتا ہے، لوگ کچھ کھلانے پلانے کا تقاضا بھی کرتے ہیں، گھر میں پارٹی بھی ہوجاتی ہے۔ یہ تام جھام بڑی بوڑھیوں کو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا، اسی لئے وہ اپنے بیٹوں سےکہہ دیتی ہیں، ’’ہمیں دیکھو، کبھی شادی کی سالگرہ نہیں منائی لیکن ہمارا رشتہ کتنا مضبوط ہے! کبھی ہماری بحث اور تکرار کمرے سے باہر نہیں آئی۔ تم لوگ کیک ویک کاٹتے ہومگر تمہارے رشتے میں وہ بات نہیں ہے، ایک دوسرے کا احترام نہیں ہے، پاس لحاظ نہیں ہے۔ اگر تمہارے رشتے میں ایثار کا وہ جذبہ ہوتا اور تم کیک کاٹتے اور اس رشتے کا جشن مناتے تو ہر کسی کو بھلا لگتا، کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ ‘‘
  اس پر نئی نسل مسکرا کر رہ جاتی ہے اور من ہی من میں کہہ دیتی ہے کہ خوشی منانے کا بہانہ چاہئے، آج کے دن کچھ نہ کہئے، اس دن کو خاص رہنے دیجئے۔ نئی نسل دل ہی دل میں اعتراف بھی کرتی ہے کہ ان کے رشتے میں   واقعی وہ بات نہیں  ہے۔ 
  وہ موجودہ دور کے حساب سے شادی کی سالگرہ ہی پر مل بیٹھتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، تھوڑی تفریح کرتے ہیں، ہنس بول لیتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔ اس طرح لگتا ہےکہ رشتہ نیا ہوگیا ہے مگر سچ پوچھئے تو سب کچھ بدل گیا۔ بہت زیادہ تلخی ہو تو یہ بادل نہیں چھٹتا، نفرتیں ختم نہیں  ہوتیں، کدروتیں باقی رہتی ہیں  مگر سالگرہ کی تقریب کے بہانے دنیا تو سمجھ لیتی ہے کہ سب کچھ خیریت سے ہے۔ یہ شادی کی سالگرہ کا سرسری ذکر ہوا۔ جہاں  تک گاؤں میں پیدائش کی سالگرہ منانے کا سوال ہے تو زیادہ تر لوگ گھر کے بچوں کی سالگرہ پر صرف کیک کاٹ رہے ہیں۔ اس سے آگے بڑھے تو صرف اتنا کہ کمرے کو سجا لیتے ہیں، تحفےتحائف کا تبادلہ نہیں ہوتا۔ کچھ بچے تو کیک ہی کو ’برتھ ڈے‘ کہنے لگے ہیں۔ ایک بچی جب۳؍ سال کی تھی تو اس کے گھر والوں نے بتایا کہ آج تمہارا برتھ ڈے ہے، اس نے اپنے نانا سے کہا، ’’ نانا ابو! ہمارا برتھ ڈے لے کر آؤنا۔ ‘‘ یہاں برتھ ڈے کا معنی ہے کیک۔ اب وہ تین سال کی نہیں رہی مگر ہرسا ل برتھ ڈے پر کیک منگواتی ہے، نئے کپڑے بھی پہنتی ہے۔ اس بچی کو موبائل سے معلوم ہوا کہ برتھ ڈے کیسے مناتے ہیں ؟
  اس کے باپ اور دادا کو کسی نے برتھ ڈے وِش نہیں  کیا تھا، وہ اس کا انتظار بھی نہیں  کرتے تھے۔ موبائل فون دیکھ کر ایک برتھ ڈے پر وہ کہنے لگی، ’’دادی! میرا ٹوپی والا برتھ ڈے کب مناؤگی جو موبائل میں رہتا ہے؟‘‘ 
 وہ غبارے سے کمرہ سجانے کی بھی ضد کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند سال میں اس کی یہ ضد بھی پوری ہوجائے۔ 
  اسی طرح گا ؤں کے ایک گھر میں سالگرہ کی تقریب تھی۔ رشتہ دار بھی جمع تھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ بیٹی کا برتھ ڈے ہے، دوستوں اور رشتہ داروں کی کھانے کی دعوت ہے۔ تہری (گوشت، آلو، نئے چاول اور مٹر کاپکوان ) بنی ہے۔ اس تقریب میں  بھی کیک کٹا تھا لیکن اصل پکوان گاؤں کا تھا۔ اس گھر سے ’ہپی برتھ ڈے ٹو یو‘ کی گونج سنائی دی، پھر قہقہے بلند ہوئے، شور ہوا، کچھ دیر بعد دستر خوان سج گیا۔ 
مہمان، بچی کیلئے شہروں کی طرح برتھ ڈے کے روایتی تحفے نہیں لائے مگر اس کی جیب چھوٹے بڑے نوٹوں سے بھر دی، اس کا چھوٹا سا پرس بھی چھلک گیا۔ 
گاؤں کے کچھ بڑے بوڑھوں کو اس طرح سالگرہ منانے پر اعتراض نہیں  ہے، ان کا بس یہی کہنا ہے کہ زندگی کے ہر لمحے کو یاد گار بنا نا اور خوشی تلاش کرنا تمہار ا حق ہے، بس اپنی رسموں کو مت بھولنا، انہیں زندہ رکھنا، اپنی روایتوں کی حفاظت کرنا۔ وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ چادر دیکھ کر پیرپھیلاؤ، ان سب میں کسی سے مقابلہ نہ کرو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK