بہار میں ووٹر لسٹ کی ’’خصوصی گہری نظرثانی‘‘ کے نام پر ووٹرس سے ان کی شہریت کا ثبوت طلب کئے جانے کے بعد جس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں اور اپوزیشن جس طرح کے اعتراضات کررہا ہے، اس سے تو کم از کم اسی اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو خطرہ اسی اداراہ سے ہے جسے اس کےتحفظ میں کلیدی رول ادا کرنا ہے۔
زیر نظر تصویر میں انتخابی عملہ شہریوں میں انتخابی فارم تقسیم کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں الیکشن کمیشن کا اعتبار شاید اپنی سب سے نچلی سطح پر ہے، اپوزیشن ہر روز انتخابی نتائج پر سوال اٹھا رہاہے اورمہاراشٹر الیکشن پر اٹھنےوالے سوالات تشفی بخش جواب کے منتظر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کمیشن آئندہ انتخابات کے حوالے سے پوری ذمہ داری کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا، عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرتا اور یہ باورکراتا کہ اس پر اٹھنے والے سوالات بے بنیاد ہیں مگر ایسانہیں ہورہا۔ اس کےبرخلاف پے در پے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں جو اندیشوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ اس میں تازہ ترین اور سب سےبڑا معاملہ بہار میں ووٹرلسٹ کی ’’خصوصی گہری نظر ثانی‘‘ کا ہے۔ اس سے قبل انتخابی ضوابط میں ترمیم کے ذریعہ انتخابی عمل سے متعلق دستاویزات اور انتخابی مراکز کےسی سی ٹی وی فوٹیج تک عوام کی رسائی کو محدود کیا جانا الیکشن کی شفافیت پر سوال کھڑے کر چکا ہے۔ یہ فیصلہ ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے کم وبیش ایک ہفتے بعد کیاگیا جس میں کورٹ نے عرضی گزار محمود پراچہ کو ہریانہ اسمبلی الیکشن سے متعلق فوٹیج فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عالم یہ ہے کہ فارم ۱۷؍ جو انتخابی عمل کی شفافیت کو جانچنے کا کلیدی دستاویز ہے، تک بھی عوام کی رسائی کو محدود کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے اقدمات پر سوال اٹھ رہے ہیں تو اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں اورافسوس کہ کمیشن عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کو رفع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن کے وقت کا وہ واقعہ کسے یا د نہیں جب ادیشہ میں انتخابی ریلی کیلئے پہنچنے پر وزیراعظم مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی لینے اوراس کی ویڈیو گرافی کرنے کی پاداش میں آئی اے ایس افسرمحسن خان کو معطل کر دیا گیا تھا۔ چندی گڑھ میں میئر الیکشن کے وقت پریسائڈنگ آفیسر انل مسیح کی وہ تصویر آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے جس میں وہ بی جےپی کے امیدوار کی کامیابی کی راہ ہموار کرتے اور مخالف پارٹی کے ووٹوں کو خراب کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرہ میں قید ہوگئے تھے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا، میئر الیکشن کا نتیجہ تبدیل ہوا، بی جےپی کی جگہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کی فتح ہوئی اور انل مسیح کو اپنی حرکت پر معافی مانگنی پڑی۔ ایسے واقعات کی فہرست طویل ہے جو تھوڑی سی تحقیق کے بعد تیار کی جاسکتی ہے۔ بہت پرانی بات نہیں، ۲۰۲۴ء کے ہی پارلیمانی الیکشن کی مہم میں ہی وزیراعظم مودی کی تقاریر پر واویلا مچا تھا۔ ان پر الزام لگاتھا کہ وہ براہ راست مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کامظاہرہ کرکے اکثریتی طبقے کے ووٹوں کو اپنی پارٹی کے حق میں متحداور اُستوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کمیشن نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔ یہی حال مہاراشٹر اورہریانہ کے اسمبلی الیکشن پر اٹھنے والے سوالات کا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نہ صرف یہ کہ مسلسل سوال اٹھارہے ہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ اخبارات میں مضمون لکھ کر اور اعدادوشمار پیش کرکے کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے اور ملک میں منصفانہ، شفاف اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔ راہل گاندھی کے سوالوں کے جواب بی جےپی کی طرف سے تو دیئے گئے مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے نہ باقاعدہ جواب دیاگیا نہ راہل گاندھی کو بلا کر ان کے شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔
اور اب بہار میں عین الیکشن سے قبل انتخابی فہرست پر ’’خصوصی گہری نظرثانی‘‘ کا معاملہ ایک بار پھر نہ صرف منہ پھاڑے کھڑا ہےبلکہ اس نے بہار کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو انتخابات کے اعلان سے قبل ہی مشکوک کردیا ہے۔ انتخابی فہرست پر نظر ثانی کوئی ایسا عمل نہیں جس پر ہنگامہ مچےمگر بہار میں جس طرح ووٹرس سے ان کی شہریت کا ثبوت طلب کیا جا رہاہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اپوزیشن نے اسے نوٹ بندی کی طرز پر ووٹ بندی کا نام تو دیا ہی ہے، معروف صحافی روہنی سنگھ کا یہ ٹویٹ ملک کے ایک بڑے طبقے کی ترجمانی بھی کرتا نظر آتا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کی ذمہ دا ری آزادانہ اور منصفانہ الیکشن منعقد کرانے کی ہے، شہریت کی تصدیق نہیں۔ ملک کے غریب ترین شہریوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرناملک کے خلاف جرم ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا اب خود ہندوستانی جمہوریت کیلئے خطرہ بن گیاہے۔ ‘‘ یہ اندیشہ بے وجہ نہیں کہ الیکشن کمیشن کی اس ’’خصوصی گہری نظر ثانی ‘‘ سے ایسے غریب اور ناخواندہ شہریوں کی بڑی تعداد حق رائے دہی سے محروم ہوسکتی ہے جو دستاویزات کے معاملے میں الرٹ نہیں ہے۔ افسوس کہ ایسے شہریوں کی بہار میں بہت بڑی تعداد ہے۔
الیکشن کمیشن موجودہ نظرثانی کے تعلق سے ۲۰۰۳ء کا حوالہ دے رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۳ء کے بعد سے چونکہ انتخابی فہرست پر نظر ثانی نہیں ہوئی اس لئے یہ ضروری ہے تاہم وہ یہ نہیں بتاتا کہ کیا اس وقت کی نظر ثانی میں ووٹرس سے شہریت کے ثبوت مانگے گئے تھے؟ یقیناً نہیں مانگے گئے تھے۔ تاہم نئی نظر ثانی میں ۲۰۰۳ء کےبعد رجسٹرڈ ہونےوالے تمام ووٹرس کو اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں۔ خود الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق ۲ء۹۳؍ کروڑ ووٹرس کو اس عمل سے گزرنا پڑے گاجبکہ دیگر اندازوں کے مطابق یہ تعداد ۴؍ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ یعنی ۲۰۰۳ء کے بعد کے تمام ووٹرس جو ۵؍ پارلیمانی اور ۵؍ اسمبلی انتخابات میں ووٹ دے چکے ہیں، اب الیکشن کمیشن کے مطابق مشکوک ہیں اوراشن کی شہریت کی تصدیق ضروری ہے۔ اس کیلئے اس نے شہریوں کو ۳؍ زمروں میں تقسیم کردیا ہے۔ اول وہ جو ۱۹۸۷ء سے پہلے پیدا ہوئے۔ ایسے افراد کیلئے صرف اپنی تاریخ اور جائےپیدائش کا ثبوت فراہم کرنا کافی ہے۔ ایسے افراد چونکہ ۲۰۰۳ء سے پہلے کی ووٹر لسٹ میں موجود تھے اس لئے ان کیلئے مسئلہ نہیں ہے۔ دوسرے زمرے میں وہ لو گ ہیں جو یکم جولائی سے ۲؍ دسمبر ۲۰۰۴ء کے درمیان پیدا ہوئے ہیں۔ ان کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے ثبوت کے ساتھ ہی اپنے والدین میں سے کسی ایک کی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کریں۔ تیسرے زمرے میں ۲؍ دسمبر ۲۰۰۴ءکے بعد پیدا ہونےوالے نوجوان ووٹر ہیں جنہیں اپنے ساتھ اپنےدونوں والدین کے ثبوت فراہم کرنے ہیں۔ شہریت کی تحقیق کا اختیار وزارت داخلہ کو ہے مگر انتخابی فہرست پر نظر ثانی کے نام پر یہ کارروائی الیکشن کمیشن انجام دے رہاہے۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہورہاہے۔ اس کا یہ عمل بی جےپی کے اس بیانیہ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ ملک بھر میں ’’گھس پیٹھیوں ‘‘ نے انتخابی فہرست میں جگہ بنا لی ہے۔
اب جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے اور سپریم کورٹ نے آدھار، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو بھی ثبوتوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا ہے، کمیشن کیلئے بہترین موقع ہے کہ وہ ان دستاویز کو قبول کرکے اس اندیشے کودور کرے کہ اس کے اس عمل سے شہریوں کی ایک بڑی تعداد حق رائے دہی سے محروم ہوسکتی ہے۔