تنظیم وقت میں ہر کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہات کا آج ہم جائزہ لیں گے۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 3:11 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
تنظیم وقت میں ہر کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہات کا آج ہم جائزہ لیں گے۔
ہمارے لاکھوں طلبہ اعلیٰ تعلیمی اِداروں کی جانب گامزن ہیں۔ وہاں نصاب پورے مُلک اور ساری قوموں کیلئےیکساں ہے البتہ خوداعتمادی، بُردباری اور وقت کی احسن تنظیم سے نمایاں کامیابی ممکن ہے۔ تنظیم وقت میں ہر کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی مختلف وجوہات کا آج ہم جائزہ لیں گے:
ترجیحات کی لاعلمی:
تنظیم وقت یا ٹائم مینجمنٹ میں ایک بڑی اَڑچن کا نام ہے :اپنی ترجیحات سے لاعلمی کہ آخر پہلے آپ کو کون سا کام کرنا ہے اور بعد میں کیا کرنا ہے؟یہ صرف طلبہ کی نہیں بلکہ بڑوں کی بھی بڑی کمزوری ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کے تعلق سے صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے، طلبہ کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے۔ اُن کے سامنے پڑھائی کا، دیگر کاموں کاایک انبار لگا رہتاہے اور اس انبار کو دیکھ دیکھ کر کوفت ہوتی ہے، جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، بوکھلاہٹ سے دوچار ہوتے ہیں اور محض ترجیحات سے بے خبری کی بناء پر صرف وقت ضائع ہوتے رہتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ (الف) ہم یہ سمجھیں کہ ہم کوئی کام کریں یا نہ کریں مگر پھر بھی وقت تو بھاگے جارہا ہے۔ اسلئے صرف سر پکڑ کر بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (ب) اس کا ایک علاج یہ ہے کہ دن بھر، ہفتہ بھر کے کاموں کی فہرست بناتے وقت اس کو نمبر بھی لگا دیں (ج) آپ کے پاس یہ ویژن یا سوجھ بوجھ ہو کہ کس کام کو کس پر ترجیح دیں۔ ترجیحات کی فہرست بگڑ رہی ہے، تب بھی آپ ڈسٹرب نہ ہوں۔ (د)کئی چیزیں، کئی کام ایک ساتھ شروع نہ کریں (۲) جو بھی کام شروع کرتے ہیں اس کے تعلق سے اطمینان رکھیں اور کنفیوژن کا شکار نہ ہوں۔
منفی و مایوس افراد کی صحبت :
زندگی کے سارے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ سکتے ہیں اگر منفی خیالات کے حامل اور مایوس زدہ افراد کے ساتھ رہنے کے ہم عادی ہوجائیں کیوں کہ یہ وہ افراد ہیں جو ہر چیز میں منفی پہلو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ صرف شکایتوں کا دفتر کھولے رہتے ہیں، ہر کسی کی صرف کمزوریوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان پر بڑا ’عالمانہ‘ تبصرہ کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ایسے افراد کی صحبت میں آپ کا وقت صرف برباد ہی ہوتا رہتا ہے کیونکہ منفی فکر کے حامل افراد ہمیشہ لاحاصل سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں اور ان کی سنگت میں رہنے والوں کو وہ اپنے جیسا بنا لیتے ہیں۔ ایسے افراد آپ کا ٹائم مینجمنٹ صرف ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں کیوں کہ اُن کے پاس صرف ٹائم ہے، اس کا مینجمنٹ نہیں ہے۔
سستی، کاہلی، ٹال مٹول :
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ کسی دن اپنا ٹائم ٹیبل بناتے ہیں، کاغذ پر لکھتے ہیں لیکن اُن کی سُستی اور کاہلی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اُس کاغذ کو جیب سے نکال کر پورا دن دیکھنے کی زحمت تک نہیں کرتے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹائم ٹیبل کی اُس پرچی کو اپنے اسٹڈی ٹیبل کے سامنے چسپا ں کردیتے۔ انسانی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اسے آنے والا دن بڑا سُہانا لگتا ہے۔ ہمارے طلبہ بھی جنھوں نے آج دو گھنٹے پڑھائی نہیں کی وہ سوچتے ہیں کہ کل ۱۸؍ گھنٹے پڑھائی کریں گے، یہ کیوں کر ممکن ہے؟ہر بار وہ ایک غیر فطری ٹائم ٹیبل بناتے رہتے ہیں جو کامیاب ہونے سے رہا اور پھر شکایت کرتے رہتے ہیں، کوستے رہتے ہیں نصیب کو کہ اُن کا ٹائم ٹیبل ناکام ہورہا ہے۔ وقت تیزی سے بھاگتے رہتا ہے، پھر وہ سستی اور کاہلی کا عادی ہوجاتے ہیں اور پھر اُن کا وقت صرف گزرتا رہتا ہے اور اُسے لگام لگانے کا شعور یعنی ٹائم مینجمنٹ کے محاذ پر وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
’ایک دن‘:
ہماری قوم کی ایک بڑی اکثریت اس ذہنی بیماری کا بھی شکار رہتی ہے جس کا نام ہے ’ایک دن‘۔ ان کی قوت ارادی اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ ’ایک دن‘ آج کا دن ہے۔ وہ ہمہ وقت زندگی سے فرار حاصل کرنے کی ذہنی کیفیت کا شکار رہتے ہیں۔ دن، مہینے، سال اسی میں بیت جاتے ہیں کہ بس ’ایک دن‘ کی بات ہے اور اُن ایک دن کے انتظارمیں اس کے سارے ٹائم ٹیبل اور سارے منصوبے چوپٹ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر اوقات وہ ’ایک دن‘ صرف ایک خیالی پلائو ہی ہوتا ہے! ہمارے بڑے بھی ذرا اس ’ایک دن‘ کے سُرابوں سے باہر نکلیں جیسے ’ایک دن ساری دنیا کے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آجائیں گے‘، ’ابھی میرا بیٹا پڑھ نہیں رہا ہے مگر ایک دن تو وہ آئی آئی ٹی کا آل انڈیا ٹاپر بن جائے گا‘’ایک دن......‘ یہ سارے ’ایک دن‘ کے انتظار بے بنیاد ہوتے ہیں کیوں کہ اُ س کیلئے ضروری ریاضت و محنت کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ بدبختی سے ہمارے بچّوں کو بھی اُس ’ایک دن‘ کی عادت پڑ جاتی ہے۔
’مسٹر مکمل‘ بننا :
کچھ لوگ (جن میں طلبہ بھی شامل ہیں ) مسٹر پرفیکٹ بننے کا سوچتے ہیں یعنی کسی بھی کام کو اپنی آخری حد تک مکمل، کرنے کی کوشش کرنا۔ انسان کا یہ مزاج اچھا بھی ہوتا ہے البتہ اس عمل میں وہ کسی کام کو یا اس سے وابستہ کچھ غیر ضروری چیزوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر ان پر وقت ضائع کیا جاتا ہے یعنی وہ ضمنی معاملات کو اصل چیزوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جیسے ہم اپنے کسی دوست کو تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس تحفے کے معیار کے تعلق سے سوچنے کے بجائے اس کے بکس کو سجانے میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ طلبہ کسی ایک سبق پر، اس کے ہر ہر سوال پر خوب خوب وقت خرچ (بلکہ ضائع) کرنے کے بعد ہڑ بڑاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ اس سبق کی بناء پر چار اہم اسباق چھوٹ گئے۔
’جھٹ پٹ‘ راستوں کی تلاش:
بدبختی سے ہماری قوم کے اکثر نوجوان زندگی میں آسان یعنی محنت سے عاری راستوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی اس ’تلاش‘ میں بدقسمتی سے اکثر والدین بھی ان کے ہمراہ اور ہم قدم رہتے ہیں۔ بچّو! ریاضی کا ایک آسان ترین کلیہ آپ نے اسکولوں ہی میں پڑھا ہوگا کہ دو نقاط کے درمیان کا سب سے چھوٹافاصلہ ہمیشہ سیدھا راستہ ہی ہے یعنی منزل مقصود تک کم وقت (اور حقیقی سکون قلب کے ساتھ) میں سیدھے راستے سے ہی پہنچا جاسکتا ہے مگر ہمارے یہاں کی ایک بڑی اکثریت ’جھٹ پٹ‘ راستوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے محلوں کے ہر نکّڑ پر اور سوشل میڈیاپر ورغلانے کیلئے ایک سے ایک ’استاد‘ اورگُروکھڑے رہتے ہیں جو اُنھیں یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہ کڑی محنت و ریاضت کا راستہ کانٹوں بھرا ہے۔ وہ ان نوجوانوں کو راتوں رات کامیاب ہونے کے راستے بتاتے رہتے ہیں اور پھر آسان راستوں کی تلاش میں ان کا وقت اور ان کی زندگی بھی صرف ضائع ہوتی رہتی ہے۔ دوستو! محنت کے ذریعے جس منزل کو آپ ۵؍سال کو پالیتے ہیں اُسے غلط اور گمراہ کُن راستوں پر جاکر ۲۵؍سال میں بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ آسان راستوں کی تلاش آپ کے ٹائم مینجمنٹ کی سب سے بڑی دشمن ہے کیوں کہ اس بے سود تلاش میں آپ کے چند گھنٹے، چند دن، چند مہینے نہیں بلکہ پوری زندگی ہی دائو پر لگ جاتی ہے۔