Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہندوستانی فضائیہ کے تربیتی جنگی طیارے کیوں ’ کریش‘ ہو رہے ہیں ؟

Updated: July 13, 2025, 5:09 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ایئر فورس اپنے پائلٹوں کی تربیت کیلئے کچھ ایسے طیاروں پر انحصار کررہی ہے جو ۴۰؍ سے ۵۰؍ سال پرانے ہیں ، ساتھ ہی طیاروں کی تعداد بھی کم ہے جو غیر ضروری دبائو کا سبب بن رہے ہیں۔

The MiG-21 entered service in the 1960s. The aircraft should have been retired by now, but it is still in service as an interceptor in many squadrons. Photo: INN
مگ ۲۱؍ طیارہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سروس میں آیا تھا۔ یہ طیارہ اب تک ریٹائرکردیا جانا چاہئے تھا لیکن یہ آج بھی کئی اسکواڈرنز میں انٹرسیپٹر کا رول نبھا رہا ہے۔ ۔ تصویر: آئی این این۔

گزشتہ دنوں فضائیہ کا ایک اور تربیتی جنگی طیارہ جیگوار حادثے کا شکار ہو گیا۔ اس میں سوار دونوں پائلٹوں کی موت ہو گئی۔ یہ ایک ہی سال میں تیسرا جیگوار طیارہ حادثہ کا شکار ہوا ہے۔ ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں کا کریش ہوناکوئی نئی خبر نہیں ہے۔ ایک کے بعد ایک حادثے اور ہر مرتبہ تحقیقاتی کمیٹیاں، بیان بازی اور چند ہفتوں بعد مکمل خاموشی۔ اس خاموشی میں نہ تو سوال دفن ہوتا ہے، نہ شک ختم ہوتا ہے۔ عام شہری کو صرف اتنا سننے کو ملتا ہے کہ حادثہ ’’ہیومن ایرر‘‘ یعنی انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ یا پھر یہ صرف ایک پردہ ہے جس کے پیچھے نظام کی خامیاں، پرانے طیارے، ناقص تربیت اور تھکی ہاری مشینیں چھپی بیٹھی ہیں ؟ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک فضائیہ میں طیاروں کی دیکھ بھال کا کام کرنے والے کچھ ملازمین کا کہنا ہے کہ فضائیہ میں موجود بیشتر طیارے انتہائی حساس، خطرناک اور حد درجہ بوجھ تلے دبے نظام کا حصہ ہیں۔ جب ایک طیارہ گر کر راکھ ہو جاتا ہے تو میڈیا کی شہ سرخیوں میں کچھ دنوں کے لئے پائلٹ کی تصویر اور کچھ بے جان تبصرے نظر آتے ہیں لیکن اس حادثے کے پیچھے جو کہانی ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتی۔ ان حادثات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہو گا کہ ہندوستانی فضائیہ آج بھی تربیتی اہداف کے لئے کچھ ایسے طیاروں پر ہی انحصار کر رہی ہے جن کی عمر ۴۰؍ سے ۵۰؍ سال کے درمیان ہے بلکہ کچھ معاملات میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مگ ۲۱؍ طیارہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سروس میں آیا تھا۔ یہ طیارہ اب تک ریٹائرکردیا جانا چاہئے تھا لیکن یہ آج بھی کئی اسکواڈرنز میں انٹرسیپٹر کا رول نبھا رہا ہے۔ اسے ’بائسن‘ اَپ گریڈ ضرور دیا گیا لیکن کیا کسی بوڑھے جسم پر مہنگا میک اپ پوت دینے سے وہ نوجوان ہو جاتا ہے؟
اسی طرح جیگوارجیسے طیارے جو ۱۹۷۴ء میں خریدے گئے تھے آج بھی تربیتی فلائٹس کے کام آرہے ہیں لیکن آج یہ طیارے نہ صرف کل پروزوں کی شدید قلت کا شکار ہیں بلکہ ان کی بنیادی ساخت جسے ہم ’ ایئر فریم ‘ بھی کہتے ہیں وقت کے ساتھ بہت زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے یہ طیارے فضائی دباؤ، مسلسل مشقیں اور گرم علاقوں کی پروازیں برداشت نہیں کرپاتے۔ گرم علاقوں خاص طور پر راجستھان اور یوپی کے علاقوں میں جب بھی یہ پرواز کرتے ہیں ان کا ایئر فریم ضرورت سے زیادہ گرم ہو جاتا ہے جو اکثر حادثات اور آگ لگنے کا سبب بن جاتا ہے۔ جدید جنگی طیاروں میں اس طرح کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ کو لڑاکو طیارے کے طور پر رافیل دستیاب ہو گیا ہے لیکن فضائیہ میں پائلٹوں کی تربیت کے لئے جو طیارے استعمال ہو رہے ہیں وہ مگ اور جیگوار ہی ہیں۔ ان طیاروں کا ماضی بلاشبہ شاندار رہا ہے لیکن ان کا دور ایک عرصہ ہوا گزرچکا ہے۔ اب ایف ۲۲؍، رافیل، سکھوئی، ایف ۳۵؍اور یورو فائٹر نسل کے طیاروں کا دور ہے۔ طیارے پرانے ہونے کے علاوہ بھی کچھ اور فیکٹرس ہیں جن کے سبب ہندوستانی فضائیہ کے طیارے حادثے کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک اہم فیکٹر پائلٹوں کی تربیت بھی ہے۔ کسی بھی پائلٹ کو مکمل تربیت دینا صرف ایک کورس کا نام نہیں۔ اس میں سیکڑوں گھنٹوں کی پرواز، ایئر سیمیولیٹرس( ہوائی جہاز اڑانے کا تمثیلی نظام ) کے ذریعےمشقیں اور اپ گریڈ ٹریننگ شامل ہوتی ہے لیکن موجودہ حالات میں فضائیہ کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ تربیت کے لئےوقت اور وسائل دونوں کم پڑتے جا رہے ہیں۔ ایک جانب طیارے کم ہیں، دوسری طرف پائلٹ زیادہ ہیں تو ہر پائلٹ کو طے شدہ گھنٹوں سے کم پرواز کا موقع ملتا ہے۔ سیمیولیٹرس کی قلت اور جدید ٹریننگ انفراسٹرکچر کی کمی بھی مسئلے کو سنگین بنادیتی ہے۔ تربیت میں کمی کے نتیجے میں یا تو پائلٹ کی کارکردگی میں جھول آجاتا ہے یا کسی مشن میں فیصلہ سازی کی غلطی جو بعض اوقات جان لیوا ثابت ہو تی ہے۔ 
دوسرا اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ زمین پر موجود ٹیکنیکل اسٹاف کسی بھی طیارے کی جان ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو راتوں کو جاگ کر، گرمی، بارش یا سردی کی پروا کئے بغیر طیارے کو قابلِ پرواز بناتے ہیں لیکن ان لوگوں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ ان پر توجہ صرف مشین خراب ہونے پر ہی دی جاتی ہے، انسان کی تھکن پر نہیں۔ ان کی ڈیوٹیاں مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ آرام کا وقت محدود، سہولتیں ناقص اور ذاتی زندگی تقریباً نہ ہونے کے برابر۔ ایسے تھکے ہارے لوگ جب انجن، ہائیڈرولک سسٹمز یا طیارہ کے برقی نظام کی دیکھ بھال کریں گے تو غلطی کا احتمال بڑھ جائے گا — اور ایک چھوٹی سی چُوک بڑے حادثے میں بدل جاتی ہے۔ 
لیکن فضائیہ کے طیاروں کےحادثوں کا سب سے گہرا پہلو وہ ہے جو ہمیں کم دکھائی دیتا ہے اور وہ ہے اس پورے نظام کی فرسودگی۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک نے اتنے حادثات سے کیا سیکھا؟ کیا ہم نے کوئی قابلِ اعتماد خودکار نظام بنایا؟ کیا ہم نے پرانے طیاروں کی جگہ لینے کے لئے تیجس جیسے منصوبے پر بروقت کام کیا؟مگ ۲۱؍ اور مگ ۲۷؍ جیسے طیاروں کے لئے روس سے کل پرزے ملنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ وہ کمپنیاں یا تو بند ہو چکی ہیں یا دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں لیکن ہماری پالیسی یہ ہے کہ ان طیاروں کو برقرار رکھا جائے بھلے ہی ان سے کچھ جانیں کیوں نہ جاتی ہوں۔ 
 ہندوستانی فضائیہ آج جس حکمت عملی پر عمل کر رہی ہے وہ مغربی فضائی افواج سے متاثر ہے جس میں پائلٹ کو زیادہ سے پرواز کا موقع، ریڈار کنٹرول سے آزادی اور تیز ترین ذاتی فیصلےلیکن جو طیارے ہمارے پاس ہیں وہ سوویت روس کی سوچ کے تحت بنے تھے جہاں پرواز محدود ہوتی تھی اور فیصلے ریڈار کنٹرولر کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ اس امتزاج نے طیارے اور پائلٹ دونوں پر غیر معمولی دباؤ ڈال دیا ہے۔ نتیجہ انجن فیل، آکسیجن نظام ناکام، ہائیڈرولک مسائل اور پھر حادثے۔ دنیا کے ہر ملک میں فضائی حادثے ہوتے ہیں۔ امریکہ اور روس بھی اس فہرست سے باہر نہیں لیکن وہاں یہ حادثے تحقیق، ترقی اور نئے طیارے بنانے کے سفر کا حصہ بن جاتےہیں۔ ہندوستان میں یہ حادثے تحقیق کا سبب نہیں بنتے — بس ایک فائل، ایک انکوائری اور پھرخاموشی۔ جب تک ہم اس نظام کی خامی کو تسلیم نہیں کریں گےتب تک ہر حادثہ صرف ایک پائلٹ کی قربانی نہیں ہوگا بلکہ ہماری دفاعی ناکامی کا زندہ ثبوت ہوگا۔ اگر ایچ اے ایل جیسے ادارے جدید ٹیکنالوجی پر سنجیدگی سے کام کریں اور اگر تیجس جیسے پروجیکٹ وقت پر مکمل ہو جائیں، اگر پائلٹس اور اسٹاف کو جدید ترین تربیت، مکمل آرام اور بعد از ریٹائرمنٹ تحفظ حاصل ہو تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ایک مضبوط، محفوظ اور جدید فضائی طاقت کے طور پر ابھرے گا۔ 
اہم وجوہات 

(۱)ہندوستانی فضائیہ آج بھی تربیتی اہداف کے لئے کچھ ایسے طیاروں پر ہی انحصار کر رہی ہے جن کی عمر ۴۰؍ سے ۵۰؍ سال کے درمیان ہے بلکہ کچھ معاملات میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مگ ۲۱؍ طیارہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں سروس میں آیا تھا۔ یہ طیارہ اب تک ریٹائرکردیا جانا چاہئے تھا لیکن یہ آج بھی کئی اسکواڈرنز میں انٹرسیپٹر کا رول نبھا رہا ہے۔ 
(۲) جیگوارجیسے طیارے جو ۱۹۷۴ء میں خریدے گئے تھے آج بھی تربیتی فلائٹس کے کام آرہے ہیں لیکن آج یہ طیارے نہ صرف کل پروزوں کی شدید قلت کا شکار ہیں بلکہ ان کی بنیادی ساخت جسے ہم ’ ایئر فریم ‘ کہتے ہیں وقت کے ساتھ بہت زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے یہ طیارے فضائی دباؤ، مسلسل مشقیں اور گرم علاقوں کی پروازیں برداشت نہیں کرپاتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK