Inquilab Logo

بہت کچھ بدل رہا ہے مگر کس کو فکر ہے؟

Updated: April 11, 2021, 7:58 PM IST | Agency | Khalid Shaikh

وزیر اعظم مودی کو اقتدار پر جمے رہنے اور مخالفین کو پست کرنے کا ہنر آتا ہے۔ انہوں نے ایک نپی تلی حکمت عملی کےتحت اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنے پسندیدہ افسرشاہوں کو تعینات کیا ۔ یہ پہلے بھی ہوتا تھا مگر گزشتہ سال کا مشاہدہ مختلف ہے۔

Narendra Modi. Picture:INN
نریندر مودی۔تصویر :آئی این این

نریندرمودی کے زورِ خطابت کے ذریعے لوگوں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی صلاحیت کی داد دینی ہوگی۔ وہ ایک اولوالعزم انسان ہیں جو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ قارئین کویاد ہوگا کہ ۲۰۱۴ء میں وزیراعظم بننے کے لئے انہوں نے کس چالاکی سے برسوں سے وزارت ِ عظمیٰ کی آس لگائے اپنے سیاسی گرو اور دوسرے سینئر لیڈروں کو حاشئے پر لگایا، لوگوں میں خود کو قابل قبول بنانے کے لئے ’ہندو ہردئے سمراٹ‘ کا چولا اتارا، سدبھاؤنا یاترا کے ذریعے لوگوں کو ڈیولپمنٹ، سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دنوں کا خواب دکھایا اور ’وکاس پتر‘ بن گئے۔ لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کا انداز اور تیور بدل گئے۔ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن کی صعوبتوں اور معیشت کے ٹھپ ہونے کے باوجود بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشینری ، اندھ بھکتوں کا سوشل میڈیا اور گودی میڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مودی پہلے کی طرح آج بھی عوام میں اتنے ہی مقبول ہیں۔ اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ مودی جی کی شخصیت کا جادو اور حکومت  کا وجود تشہیری مہم کا مرہونِ منت ہے جس نے بہت کچھ سنبھال رکھا  ہے۔ مودی کو اقتدار پر جمے رہنے اور مخالفین کو پست کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد ایک نپی تلی حکمت عملی کے تحت انہوں نے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنے پسندیدہ افسرشاہوں کو تعینات کیا ۔ یہ پہلے بھی ہوتا تھا مگر گزشتہ سات برسوں کا ہمارا مشاہدہ کچھ اور کہتا ہے۔ سرکاری و آئینی اداروں میں جی حضوری پہلے سے زیادہ ہوگئی ۔  جو اس پیمانے پر پورا نہیں اترا اس کا ٹرانسفر کردیا گیا یا  وہ ازخود مستعفی ہونے پر مجبور ہوگیا۔  دکھ اس بات کا ہے کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے آزاد اور خودمختار آئینی اداروں کا وقار بھی مجروح ہونے لگا ہے۔ یہ اور بات ہےکہ ان  اداروں میں آپ کو ایسے جج اور افسر شاہ بھی ملیں گے جنہوں نے سسٹم کا حصہ بننے کے بجائے اس کی خامیوں کی گرفت کی اور حکومت پر تنقید ضروری سمجھی تو اس میں بھی پس و پیش نہیں کیا۔ (ارونارائے، ہرش مندر اور کنن گوپی ناتھن جیسے افسرشاہوں کا شمار ایسے ہی باضمیر لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملازمت کو ٹھوکرماری اور سماجی و حقوق انسانی کے رضاکار بن گئے۔)
 ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ مودی۔شاہ جوڑی پر تنقید کرنے والوں  کے لئے زمین بھی تنگ کردی جاتی ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ انتخابی مہم میں اس جوڑی کے کئی نزاعی بیانات کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کارروائی کی اپیل کی گئی۔ سہ نفری کمیشن کے دو ممبروں نے مودی۔شاہ کو کلین چٹ دے دی لیکن تیسرے ممبر اشوک لواسا نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ لواسا کی رائے کو رپورٹ میں جگہ نہیں دی گئی لیکن حکومت انتقامی کارروائی پر اترآئی۔ اسے سیاسی یا ملازمتی رقابت کہئے یا حکومت کا خوف کہ مذکورہ کلین چٹ دینے والے دونوں ممبر لواسا کے بچاؤ میں نہیں آئے۔ نتیجتاً انہیں کمیشن سے استعفیٰ دینا پڑا اور ان کی تقرری  بیرون ملک کر دی گئی۔ سینیاریٹی کے لحاظ سے سابق چیف الیکشن کمشنر سنیل ارورہ کی میعادِ کار ختم ہونے کے بعد لواسا کیلئے موقع تھا۔آج ان کی جگہ راجیوکمار اس عہدے پر تعینات ہیں۔
 الیکشن کمیشن کی تاریخ میں دو ایسے لائق ستائش سی ای سی گزرے ہیں جنہوں نے  سیاسی آقاؤں کی   آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں۔ ان میں پہلا نام ٹی این سیشن کا ہے۔ ان سے پہلے الیکشن کمیشن ایک سرکاری محکمے کی طرح کام کرتا تھا۔ اس کی حیثیت بغیر دانت کے شیر جیسی تھی جو دہاڑ سکتا تھا نہ کاٹ سکتا تھا۔ انتخابی مہم اور ووٹنگ کے دوران تشدد اور بوتھ چوری کی وارداتیں عام تھیں۔ سیشن نے اپنے ’نو نان سینس‘ رویہ سے ان برائیوں کو دور کیا۔ پرامن اور آزادانہ انتخابات کروائے جن سے عوام  میں کمیشن کے تئیں اعتماد پیداہوا۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ کمیشن کے عمال اور سیاستدانوں کو اپنی حدیں سمجھانا تھا۔ نرسمہاراؤ نے ان کے پَر کترنے اور اختیارات پر قدغن لگانے کیلئے یک نفری کمیشن کو سہ نفری کمیشن میں تبدیل کردیا لیکن سیشن کے تیور میں کمی نہیں آئی۔ ان کی وراثت کو ایک دوسرے سی ای سی جے ایم لِنگڈوہ نے آگے بڑھایا۔ اس وقت گجرات میں مودی وزیراعلیٰ تھے  اور مرکز میں واجپئی کی حکومت تھی۔ گجرات فسادات کے زخم تازہ تھے۔ حسب توقع مودی، پولرائزیشن کا فائدہ اٹھانے کے لئے الیکشن جلد کروانا چاہتے تھے۔ اس کیلئے انہوں نے سام،دام، دنڈ، بھید کاحربہ آزمایا لیکن لنگڈوہ نے ان کی ایک نہ مانی اور حالات کے نسبتاً معمول پر آنے کے بعد ہی الیکشن کی ہامی بھری۔ لنگڈوہ  سے پہلے ایم ایس گِل الیکشن کمیشن چیف تھے۔  ۱۹۹۵ء میں سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے شیوسینا چیف آنجہانی بال ٹھاکرے کو انتخابی مہم کے دوران مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے جرم میں ۱۰؍ ہزار روپے جرمانہ اور ۶؍سال کے ووٹنگ کے حق سے محروم کردیا۔ ٹھاکرے نے صدر جمہوریہ سے اپیل کی جنہوں نے معاملہ الیکشن کمیشن کے حوالے کیا۔ گل اور لنگڈوہ نے عدالتی فیصلے ہی پر  مہر ثبت کی۔ سیشن اور لنگڈو کے بعد ملک کو ان جیسا کوئی سی ای سی نہیں ملا۔
 اب عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی مختلف ہے۔ عدلیہ کے چند فیصلے حکومت نواز اور اکثریت نواز واقع ہوئے اور  اس کا وقار  و اعتبار مجروح ہوا۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انصاف کی فریاد کس سے کی  جائے۔ الیکشن کمیشن، سرکاری محکمے جیسا ہوگیا ہے۔ انتخابی عمل کی  شفافیت مشکوک ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر آسام اور بنگال میں نظر آرہا ہے۔آسام میں بی جے پی لیڈر کی کارمیں ای وی ایم ملتی ہے، کمیشن چار افسروں کو معطل کردیتا ہے اور  دوبارہ پولنگ کا حکم دیتا ہے لیکن فریق مخالف کو دھمکی دینے کے الزام میں آسام کے وزیرپر لگی ۴۸؍ گھنٹے کی پابندی کو ۲۴؍ گھنٹے میںبدل دیتا ہے۔ بنگال میں مودی شکایت کرتے ہیں کہ ’’ممتا کھلے بندوں مسلمانوں سے متحد ہوکر ووٹ دینے کی اپیل کرتی ہیں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا، لیکن اگر میں اس طرح کی اپیل ہندوؤں سے کروں تو مجھے نوٹس مل جائیگا۔‘‘ ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خد

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK