Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک شاہکار نظم جو تنازع کا شکار ہوگئی

Updated: February 16, 2023, 7:35 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ یوپی کے اردواسکولوں میں ’لب پہ آتی ہے دعا…‘ ایک زمانے سے پڑھائی جاتی رہی ہے جس پر کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا ، ہندو توا وادیوں کے پیٹ میں مروڑ اس وقت اٹھا جب بریلی کے اسکول کا ویڈیو وائرل ہوا جس پر وی ایچ پی کے سورما حرکت میں آئے۔

In the Urdu schools of UP, `Lib pe aati hai dua...` has been taught since time immemorial
یوپی کے اردواسکولوں میں ’لب پہ آتی ہے دعا…‘ ایک زمانے سے پڑھائی جاتی رہی ہے

ہندوتوا وادی ،اسلام اور مسلم دشمنی میں کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ ایک حالیہ واقعے سے لگایاجاسکتا ہے جب بریلی کے ایک سرکاری اسکول کی پرنسپل ناہید صدیقی اور ’شکشامتر‘ وزیرالدین کو یوپی کے محکمہ تعلیم نے ملازمت سے اس لئے معطل کیا کہ انہوں نے مارننگ اسمبلی میں طلباء سے شاعر مشرق سرمحمد اقبال کی شہرۂ آفاق نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘ پڑھوانے کی جرأت کی تھی۔ یہ نظم آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی ہمارے بچپن میں تھی۔ نظم میں ایک بچے کی آرزوؤں اورپاکیزہ ومعصوم جذبات کو دعا کی شکل میں جس خوبصورتی اور دل موہ لینے والے انداز میں پیش کیا گیاہے وہ شاید ہی کسی دوسری زبان میں ملے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ نظم Mathilda B.Edwards کی نظم ` A Child`s Prayer` سے تحریک پاکر تخلیق کی تھی ۔ اگریہ درست بھی ہے تو انہوں نے اسے اُردو قالب میں ڈھال کر وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کی تاثیر کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ جن لوگوں نے اسے بچپن میں پڑھا تھا ، آج بھی اسے بھول نہیں پائے ہیں۔
  ۱۹۰۲ء میں لکھی گئی یہ نظم ’’بچے کی دعا ‘ ‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کے پہلے اُردو کے مجموعے ’بانگ ِ درا‘ کا حصہ ہے جسے مرتب کرتے وقت انہوںنے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس میں وہی نظمیں اور غزلیں جگہ پائیں جو فکروبیان کے لحاظ سے معیاری ہوں، چنانچہ اس میں وہی کلام شامل ہے جسے لوگوں نے علامہ اقبال کی زبانی سنا،یا جو اخباروں اور رسالوں کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں پھیل کر بچوں، جوانوں اور بوڑھوں میں مقبول اور زبان زد ہوا۔ یہ نظم کئی دَہائیو ںسے ہندوستان ہی نہیں پاکستان کے اسکولوں میں بھی پڑھی جاتی ہے جہاں علامہ اقبال کو قومی شاعر ہونے کامرتبہ حاصل ہے۔ یہ ایک دعائیہ نظم ہے جس میں بچّہ شمع کی مانند زندگی بسر کرنا چاہتا ہے جس سے دنیا کا اندھیرا دور ہو اور اس کا کونا کونا جگمگا اٹھے۔ وہ اپنے دم سے دنیا کو اسی طرح آباد اوربارونق دیکھنا چاہتا ہے جس طرح پھول، باغ کی رونق بڑھاتے ہیں۔ وہ اس پروانے کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے جو علم کی شمع سے پیار کرتے ہوئے اس پر قربان ہوجائے اوراپنی پوری زندگی غریبوں، دُکھیوں اور کمزوروں کی مدد اور خدمت میں گزارے۔ نظم کے آخری شعر میں وہ اللہ تعالیٰ سے برائیوں سے بچنے اور نیکی کے راستے پر چلنے کی توفیق چاہتا ہے: 
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو 
 نیک جوراہ ہو اس رَہ پہ چلانا مجھ کو
 خودہی سوچئے کیا آپ کو اس پیاری سی مختصر نظم میں ایسی کوئی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیاجائے۔ پوری نظم حب الوطنی ، محبت و اخوت  اور خدمتِ خلق کے پاکیزہ جذبات سے سرشار ہے۔ ہماری دانست میں اسے ہر اسکول اورہر زبان میں پڑھایاجانا چاہئے لیکن بُراہو ان لوگوں کا جو ملک میں ہندو۔مسلم کے نام پر تفرقہ اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ ہندوستان میں ایسی طاقتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ جب سے مودی نے بھارت کی اور یوگی نے یوپی کی کمان سنبھالی ہے انہیں کچھ زیادہ ہی کُھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ ظاہر ہے وہ لوگ جنہیں ہندوستان میں مسلمانوں کا وجو د گراں گزرتا ہے، جو اردو کو مسلمانوں کی زبان اور زعفرانی رنگ کو ہندوؤں کا رنگ مانتے ہیں، وہ ایک ایسی نظم کو کیسے برداشت کرتے جس میں ’ اللہ ‘ کا نام آتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہمارا نیک مشورہ ہے، اگر انہیں لفظ ’ اللہ ‘ پر اعتراض ہے تو  اپنے اسکولو میںوہ اسے لفظ بھگوان سے بدل دیں لیکن ملک کے تمام اسکولوں میں اس نظم کو رائج کردیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ’اللہ ‘ کہنے سے ہندوتوا وادیوں کو یہ کیوں لگتا ہے کہ ان کا دھرم بھرشٹ ہوجائیگا!
 خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ یوپی کے اردواسکولوں میں ’لب پہ آتی ہے دعا…‘ ایک زمانے سے پڑھائی جاتی رہی ہے جس پر کبھی کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا ، ہندو توا وادیوں کے پیٹ میں مروڑ اس وقت اٹھا جب بریلی کے اسکول کا ویڈیو وائرل ہوا جس پر وی ایچ پی کے سورما حرکت میں آئے۔ انہوںنے پولیس میں شکایت درج کی کہ اس نظم سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اوراس کا مقصد ’دھرم پریورتن‘ معلوم ہوتا ہے۔ پولیس نے بھی بغیر کسی تفتیش کے بڑی سعادتمندی کے ساتھ اسکول کی پرنسپل اور شکشا متر کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور محکمۂ تعلیم نے اُسی سرعت کے ساتھ دونوں کی معطلی کا فرمان جاری کیا۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ۵۶؍ انچ کے سینے والے ہندو ہردے سمراٹ اور پردھان سیوک کے ہوتے ہندو اور ہندومذہب کیسے خطرے میں آجاتا ہے اور ذرا ذرا سی بات پر ہندوتوا وادیوں کے مذہبی جذبات کیسے مجروح ہوجاتے ہیں۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں۔ ۲۰۱۹ء میں پیلی بھیت کے ایک پرائمری اسکول میں بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی پاداش میں اس کے ہیڈ ماسٹرکو مقامی وی ایچ پی ورکرس کی شکایت پر معطل کردیاگیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مدرسوں میں پڑھائی جانے والی مذہبی دعا کو اسکول کے بچوں کو پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ دعا کوئی اور نہیں علامہ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا‘ ہی تھی۔
  اسے ستم ظریفی ہی کہئے کہ جس شاعر نے رام کو ’امام الہند‘ اور گرونانک کو ’ مردِ کامل ‘ قرار دیا ، جس کے ’ترانۂ ہندی‘ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘کو قومی گیت کا درجہ حاصل ہے، جسے یوم آزادی کے موقع پر اسکولوں میں بڑے جوش وخروش سے گایاجاتا ہے اورجس کی دُھن پر ہندوستانی فوج مارچ کرتی ہے، اسی شاعر کی ایک شاہکار نظم فرقہ پرستوں کے ہاتھوں تنازع وتفرقہ کا شکار ہوگئی۔ غالباً ایسے ہی لوگوں کے لئے علامہ اقبال نے’ نیا شوالہ ‘ لکھی لیکن ہم ’ترانۂ ہندی‘ کے تین شعروں پر اکتفا کریں گے۔؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
 ہمیں امید ہے کہ ہندو توا وادی ان اشعار کو صحیح اسپرٹ میں لیں گے اور اس پر کوئی تنازع نہ کھڑا کریں گے۔n

UP School Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK