اخلاق حسنہ کے حصول کیلئے انسان کو سب سے پہلے اپنی شخصیت کے عیوب اور نقائص سے آگاہ ہونا چاہئے پھر اس شعبے کے ماہرین کے ذریعے اس کا علاج کرانا چاہئے
EPAPER
Updated: December 16, 2022, 12:23 PM IST | Dr. Naeem Anwar Nomani | Mumbai
اخلاق حسنہ کے حصول کیلئے انسان کو سب سے پہلے اپنی شخصیت کے عیوب اور نقائص سے آگاہ ہونا چاہئے پھر اس شعبے کے ماہرین کے ذریعے اس کا علاج کرانا چاہئے
ارشاد باری تعالی ہے’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کیا تھے؟ آپ نے جواب دیا
’’ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ آپؐ کے خلق وہی ہیں جو قرآن میں ہیں۔‘‘(مسند احمد)
یعنی آپ ﷺ کے ہر ہر خلق پر خلق قرآنی کا رنگ چڑھ گیا تھا اور ہر خلق ِ رسول؛ خلقِ قرآنی اور خلق ِ الٰہی سے متصف ہوگیا تھا۔ گویا ہر خلق ِقرآنی کا مصداق اتم آپ ﷺ کی ذات ِاقدس بن چکی تھی۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ آپ ﷺ خلق ِ عظیم صرف رکھتے ہی نہیں بلکہ آپ ؐخلق عظیم پر قائم ہیں… ہر خلقِ عظیم کا ظہور اور صدور آپ ﷺ کی ذات ِاقدس سے ہورہا ہے۔ آپ ﷺ خلقِ عظیم کا منبع و سرچشمہ اورمصدرِ اعظم ہیں اور آپ ﷺ ہر انسانی خلق میں عروج و کمال پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی لئے ساری انسانیت آپ ﷺ کے خلق و خصائل کی پیروکار ہے… آپ ﷺ کا اخلاق دوسروں کے لئے اسوہ و نمونہ ہے… آپؐ کی ذاتِ مبارکہ دوسروں کیلئے باعث ِخیر اور باعث ِ ہدایت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی کامیابی و نجات آپ ﷺ کی سیرت اقدس میں ہے۔ اسی سیرت کی پیروی کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ (ﷺ کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔‘‘ (الاحزاب:۲۱)
اخلاقیات اور اخلاق کا مفہوم
اخلاقیات کو انگریزی زبان میں Ethics کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے: ایک گروہ کے وہ قواعد ِ حیات اور رسوم ِزندگی جو اسے دوسرے گروہ سے ممتاز اور منفرد کرتے ہیں۔ اخلاقیات وہ علم ہے جو انسان پر بھلائی اور برائی کی حقیقت کو واضح کردے۔ جو انسان کو یہ بات سکھادے کہ دوسروں کے ساتھ کس طرح کا حسنِ معاملہ اختیار کیا جائے اور اپنی زندگی کے اعمال میں کس چیز کو مطمح نظر اور اپنا مقصدِ حیات سمجھا جائے؟ اخلاقیات کا علم انسان کو مفید اور کار آمد باتوں کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کو زندگی میں فضائل ِ اعمال اور رزائل ِاعمال کی خبر دیتا ہے کہ انسان کس طرح خود کو خصائل ِ اخلاق سے آراستہ کرے اور کس طرح خود کو رزائل ِ اخلاق سے محفوظ کرے۔
اخلاق؛ خلق کی جمع ہے، جس کا معنی، عادت، خصلت، خوئے طبعی اور مروت ہے۔یعنی انسان میں اچھی عادات، عمدہ خصائل، خوش طبعی، ملنساری اور بشاشت کے وصف کا پایا جانا اخلاق ہے۔ اگر یہ علامات کسی بندے میں پائی جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اخلاقِ حسنہ کا مالک ہے۔
حسن اخلاق کا حصول کیونکر ممکن ہے؟
اخلاق حسنہ کے حصول کے لئے انسان کو سب سے پہلے اپنی شخصیت کے عیوب اور نقائص سے آگاہ ہونا چاہئے پھر اس شعبے کے ماہرین اور متخصصین کے ذریعے اس مرض کا علاج کرانا چاہئے۔ اگر انسان اپنی اصلاح چاہتا ہے تو اسے اپنے اندر مرض اور عیب کے ہونے کا احساس ہونا چاہئے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی اور نقص، عیب اور کمزوری موجود ہوتی ہے مگر عیب و نقص کا ہونا از خود اتنی بڑی بیماری نہیں، جتنا اس عیب اور نقص کا احساس نہ ہونا بڑی بیماری ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے عیوب پر خود نظر کرے یا اس کا کوئی مربی و محسن اسے اس کے عیوب سے آگاہ کرے۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ خدا اس شخص کا بھلا کرے جو مجھے میرے عیوب پر مطلع کرے یا ان کی نشاندہی کرے۔
اپنے عیب سننا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ اگر اللہ کسی کو یہ ظرف دے دے تو وہ اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ ہمیں اپنے عیب اپنے دشمنوں سے پتہ چلتے ہیں، اسلئے مخالف و دشمن کا وجود بھی ہمیں کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ نفع دے رہا ہوتا ہے۔ دشمن تو دشمنی میں ہمارے عیب بیان کرتا ہے مگر اس کا ہمارے عیب کی نشاندہی کرنا ہماری شخصیت کو کامل بنا سکتا ہے اگر ہم اس کے ذریعے اپنے عیوب جان کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ امام غزالیؒ نے اخلاق حسنہ کے حصول کے کچھ طریقوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے، جنہیں ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے
l کچھ لوگ پیدائشی طور پر خوش خلق ہوتے ہیں اور ان میں شہوت اور غضب کا غلبہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کوئی رسمی تعلیمی مراحل عبورکئے بغیر عالم اورمودٔب ہوتے ہیں۔
lدوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے اخلاق حسنہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً: اگر کوئی شخص فیاض بننا چاہتا ہے تو اسے فیاض و سخی لوگوں کی طرح بے تکلف مال خرچ کرنا چاہئے۔ اس طرح رفتہ رفتہ فیاضی اس کی طبیعت کاحصہ بن جائے گی۔ ایک مغرور و متکبر شخص عاجزی و انکساری اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایک مدت تک خاکساری اور انکساری والی زندگی اختیار کرنی چاہئے۔ اس طرح رفتہ رفتہ خاکساری اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے گی ۔
l اخلاق سنوارنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروںکے اخلاق اور عادات کو اپنے عیوب جاننے کا آئینہ بنائیں۔ اس لئے کہ لوگوں کے اخلاق و خصائل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ اس بنا پرجو عیب دوسروں میں دکھائی دیں، ان کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر بھی تو ایسے عیوب و نقائص نہیں ہیں۔ اس انداز سے بھی انسان اپنے اخلاق کی اصلاح کرسکتا ہے۔
l اخلاق کو درست کرنے کے لئے حکماء اور ائمہ اخلاق یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ نیک لوگوں کے ساتھ دوستی و میل جول رکھا جائے۔ اخیار کی سنگت اختیار کی جائے اور اشرار کی صحبت سے بچا جائے۔ اپنی ساری صلاحیتوں کو افعالِ حسنہ اور اقوالِ حسنہ میں استعمال کیا جائے۔ اپنی قوتِ غضبیہ اور قوتِ شہوانیہ پر کنٹرول رکھا جائے۔ بات بات پر غصہ نہ کیا جائے، خواہ مخواہ خود کو برانگیختہ نہ کیا جائے۔ کوئی کام اور کوئی کلام خلافِ عقل نہ کیا جائے۔ اگر نفس غلطی کرے تو انسان خود کو معیوب ٹھہرائے۔ ارادتاً گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ صغیرہ اورکبیرہ گناہوں کو چھوڑا جائے۔ اپنے عیوب پر جب انسان مطلع ہوجائے تو پھر ان عیوب سے نفس کو پاک کرنے کے لئے تزکیہ نفس کا عمل اختیار کرے۔
انسان کے اخلاق کا ارتقائی پہلو
اگر انسان کے خلق میں درج ذیل چار اوصاف پائے جائیں تو انسان اخلاق حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے: (۱)حکمت (۲) شجاعت
(۳) عفت اور (۴) عدل۔
۱) جب انسان کے اندر موجود قوتِ عاقلہ اعتدال پر آجائے تو اس سے حکمت وجود میں آتی ہے۔ جب انسان اپنے اندر خلق حکمت کو پیدا کرتا ہے تو اس ضمن میں اس کے اندر ذکاء اور ذہانت و فطانت کا وصف ظاہر ہوتا ہے۔ اس میں سرعت فہم کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ذہن کو صفائی و طہارت ملتی ہے۔ علم کا حاصل کرنا اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل میں خوبی و کمال آتا ہے اور اس کی یاداشت مضبوط اور محفوظ ہوجاتی ہے۔
۲) اگر انسان کے اندر موجود قوتِ غضبیہ اعتدال پر آجائے تو اس سے انسان کے خلق کو وصف ِ شجاعت ملتا ہے اور انسان شجاع و بہادر ہوجاتا ہے۔ جب انسان میں شجاعت کا خلق آتا ہے تو اس میں علو ِ ہمت کا وصف پیدا ہوتا ہے۔ اس میں تحمل و بردباری کی خوبی آتی ہے اور حمیت و غیرت کا جذبہ ظاہر ہوتا ہے۔
۳) اگر انسان کے اندر موجود قوتِ شہوانیہ یا قوتِ بہیمیہ اعتدال پر آجائے تو اس سے انسان کے خلق کو پاک دامنی اور عفت و عصمت کا خلق اور وصف میسر آتا ہے۔ جب انسان میں عفت کا خلق پیدا ہوتا ہے تو اس میں حیاء کی صفت ظاہر ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں صبر بھی ظاہر ہوتا ہے، وقار و متانت کے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں اور ورع اور تقویٰ نمو پاتاہے۔
۴) مذکورہ تینوں اوصاف اگر ہمیشہ اعتدال پر رہیں تو اس کے بعد انسان میں خلقِ عدل پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ قاضی اور جسٹس کے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے خلق کو ان تینوں اصولوں سے مزین کریں تاکہ ان کے اندر خلقِ عدل ظاہر ہو۔ جب انسان میں خلقِ عدل ظاہر ہوتا ہے تو اس میں صداقت، الفت، شفقت، صلہ رحمی، تسلیم و توکل، اور عبادتِ فاضلہ کی طرف رجوع نظر آتا ہے۔ یہ انسان خلقِ عدل کی بنا پر اپنی ذمہ داریوں، اپنی قوم و ملت اور اپنے ضمیر و دل کے ساتھ وفا کرتا ہے۔ خلقِ عدل اور وصفِ عدل کے شعور اور ظہور کے ذریعے انسان معاشرے میں وہ عزت پاتا ہے جو ایک مثال ِلاوزال بن جاتی ہے۔
باری تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان اوصاف و کمالات اور اخلاق حسنہ کا قابل قدر حامل بنادے۔ آمین