جنگ میں تباہی و تاراجی یا اقتدار سے محرومی کے بعد نیتن یاہو اور خود ٹرمپ کا حال اچھا نہیں ہوگا لہٰذا دونوں اس کوشش میں تھے کہ انہیں جنگ سے نکلنے کی راہ مل جائے، وہ انہوں نے نکال لی۔
EPAPER
Updated: June 26, 2025, 10:56 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
جنگ میں تباہی و تاراجی یا اقتدار سے محرومی کے بعد نیتن یاہو اور خود ٹرمپ کا حال اچھا نہیں ہوگا لہٰذا دونوں اس کوشش میں تھے کہ انہیں جنگ سے نکلنے کی راہ مل جائے، وہ انہوں نے نکال لی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ، ایران اسرائیل جنگ میں شامل نہیں ہے تو غلط سمجھتا ہے۔ امریکہ پوری طرح اسرائیل کے حق میں جنگ میں شامل تھا مگر آخر میں وہ جنگ سے باہر نکلنا چاہتا تھا اسلئے ٹرمپ یہی نہیں کہ جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی بات ایک ساتھ کہہ رہے ہیں بلکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ایک ممبر کے ذریعہ درخواست بھی دی گئی تھی کہ امریکہ اس جنگ میں شامل نہ ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس درخواست کی حمایت ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں کے ایک ایک رکن کر رہے تھے یعنی ٹرمپ ایسا جال بننے کی کوشش کر رہے تھے کہ چت بھی ان کی ہو اور پٹ بھی ان کی ہو۔ اس دوران ان کی زبان سے آیت اللہ خامنہ ای کے قتل کی باتیں بھی کی جاتی رہیں۔ یہ ان کی مجبوری تھی۔ وہ جانتے تھے کہ امریکہ میں رائے عامہ ٹرمپ یا امریکہ کے اس جنگ میں شامل ہونے کیخلاف ہے اسی طرح اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کیخلاف مظاہرے جاری تھے۔ ان دونوں کے مقابلے میں آیت اللہ خامنہ ای کی مقبولیت ایران ہی نہیں دوسرے ملکوں میں بھی انتہائی شباب پر تھی اور ہے۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ صدام حسین اور اسامہ بن لادین کی پس از مرگ مقبولیت کے سبب امریکہ اور اس کے حواری ان کی میتوں کے ساتھ کیا کر چکے ہیں شاید اسی لئے ایران سے بات چیت اور پاکستان کے فوجی سربراہ کی وہائٹ ہاؤس میں دعوت طعام بھی ہو رہی تھی۔ انہیں یہ بھی احساس ہوچکا تھا کہ جنگ میں تباہی یا اقتدار سے محرومی کے بعد نیتن یاہو اور خود ٹرمپ کا حال اچھا نہیں ہوگا لہٰذا دونوں اس کوشش میں تھے کہ انہیں جنگ سے نکلنے کی راہ مل جائے۔ اسی لئے جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ٹرمپ نے دو ہفتہ بعد پر ٹال دیا تھا۔
اچھا ہے امریکہ اس جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرتا رہا کیونکہ امریکہ کے شامل ہوتے ہی جنگ کے کئی محاذ کھل جاتے اسی طرح اگر آیت اللہ خامنہ ای کو کچھ ہوا ہوتا تو روس ان کے قتل کا بدلہ لیتا۔ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ دنیا ابھی بھولی نہیں تھی کہ عراق کو بھی جن ہتھیاروں کے رکھنے کے الزام میں تباہ کیا گیا تھا وہ کبھی ملے ہی نہیں۔ ایران نے اس جنگ میں اسرائیل میں بہت تباہی مچائی تھی مگر اس نے گلوبل آئل سپلائی یعنی تیل کی عالمی برآمد کو چھوا بھی نہیں تھا۔ اگر اس پر یا اس کے مذہبی رہنما پر حملہ ہوا ہوتا تو ایران اسے بھی نشانہ بناتا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن وغیرہ عرب ملکوں میں امریکہ کے جو فوجی اڈے ہیں انہیں بھی نشانہ بناتا۔ جمعہ یعنی ایران پر اسرائیل کے حملے کے آٹھویں دن ایران کے بیلسٹک میزائیلوں نے جنوبی اسرائیل میں بیرالسمیع کو نشانہ بنایا تھا۔ یہاں اسرائیل کی غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستیاں ہیں۔ اس سے ایک روز پہلے ایران نے سوروکا اسپتال کو نشانہ بنایا تھا یا غلطی سے نشانہ لگ گیا تھا جس پر اسرائیل انسانی حقوق کی دہائی دے رہا تھا۔ حملے کو جنگی جرائم میں شامل کئے جانے کا مطالبہ بھی کر رہا تھا لیکن وہ غزہ میں جو کرتا رہا ہے یا جس طرح غزہ اور ایران کے (کم از کم تین) اسپتالوں کو نشانہ بناتا رہا ہے اس پر چپ تھا۔ کیا وہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں تھی۔
ایران پر حملے کے نویں دن اسرائیل نے اعلان کیا کہ اس نے رات بھر حملے کئے اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کے مختلف حصوں کو نشانہ بنایا جبکہ ایران کے گارڈس نے بتایا کہ اسرائیل پر کئی حملے کئے گئے جن میں ڈرونس اور میزائیل کے حملے شامل تھے۔ ان حملوں میں اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کی بھی تفصیل بتائی گئی۔ یہاں یہ یاددہانی ضروری ہے کہ اسرائیل اور امریکہ نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ ایران ایٹم بم بنا لینے کے قریب ہے جبکہ مغرب کے ہی کئی اہم لوگوں نے اس بات یا الزام کی تردید کی ہے۔ اسرائیل ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کو بھی اسی لئے ختم کرنا چاہتا تھا اور ہے کہ اس کی نظر میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو لگام لگانے کا یہی طریقہ ہے مگر وہ اس حقیقت کو بھول رہا ہے کہ ایران نے جس صلاحیت کو برسوں کی محنت سے حاصل کیا ہے اس کی حفاظت و ستائش کرنے والا دوسرا بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ۳؍ ایسے افراد کے نام بتائے ہیں جو ان کے جانشین بن سکتے ہیں۔ ان میں ان کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای کا نام نہیں ہے۔ یہ مثالی قدم ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ ان تینوں میں کس کو منتخب کیا جائے گا تو اس کا فیصلہ علماء کی ایک کونسل کرے گی جس کے ۸۸؍ اراکین ہیں۔ اسی دوران پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ۲۰۲۶ء کے نوبیل امن پرائز کیلئے ڈونالڈ ٹرمپ کے نام کی سفارش کرے گا۔ اس کا ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان ٹرمپ کو اس مغالطے میں رکھنا چاہتا ہے کہ وہ امن پسند ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے کے ایٹمی سینٹر پر بھی حملہ کرنے کی خبر ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ اسرائیل کو پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ اس کے ایٹمی مرکز پر بھی کوئی حملہ کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے اس قسم کے حملے صرف اسرائیل کرتا تھا۔ اس بار ایران اور اسرائیل دونوں نے ایک دوسرے کے ایٹمی ٹھکانوں پر حملے کئے لیکن بالآخر دونوں ملکوں کو جنگ بندی پر اتفاق کرنا پڑا۔
اب دو سوالات ہیں: کیا واقعی دونوں ملکوں پر حملے نہیں کئے جائیں گے یا امریکہ دنیا کے سامنے اپنا منہ بچانے میں کامیاب ہوا ہے؟ واقعہ یہی ہے کہ شکست اپنے نام لکھوانے کے بجائے امریکہ نے جنگ بندی کے نام پر خود کو بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے البتہ یہ سوال اب بھی اہم ہے کہ کیا واقعی ایران اسرائیل میں جنگ بندی ہوگئی ہے؟ شاید نہیں، اسی لئے تو ٹرمپ اسرائیل سے بظاہر نالاں ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایران میں اب اقتدار منتقلی یا تختہ پلٹ نہیں ہوگا؟ اس کا جواب بھی ’نا‘ میں ہی ہے۔ امریکہ تو یہی کوشش کرے گا کہ ایران میں خامنہ ای کی سربراہی ختم ہوجائے مگر یہ سوال اس کے سامنے بھی ہے کہ ایران میں ایسا کون ہے جو خامنہ ای کا نعم البدل بن سکے اور اس نعم البدل کو ایرانی عوام قبول بھی کرلیں؟ شاید کوئی نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ایران جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے نام پر دم لے کر امریکہ کی مدد سے ایران پر دوبارہ حملہ کرنے کا موقع حاصل کیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایران نے یہ موقع دیا کیوں؟اُس نے تو اوّل دن سے یہ صحیح موقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل نے حملہ کیا ہے وہ حملے روک دے جنگ رک جائے گی۔n