Inquilab Logo

سیاسی ناراضگی کا موسم

Updated: November 15, 2022, 2:03 PM IST | Mumbai

گجرات بی جے پی میں وہ تمام اراکین جنہیں ٹکٹ نہیں ملا اسی طرح ناراض ہیں جیسے ہماچل پردیش کے اراکین ناراض تھے۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 گجرات بی جے پی میں وہ تمام اراکین جنہیں ٹکٹ نہیں ملا اسی طرح ناراض ہیں جیسے ہماچل پردیش کے اراکین ناراض تھے۔ ان اراکین کو سمجھانے بجھانے کیلئے وزیرداخلہ امیت شاہ ہر ممکن تگ و دو کررہے ہیں۔ اس کیلئے ایک ٹیم بنائی گئی ہے جس میں سابق وزیراعلیٰ وجے روپانی اور دیگر شامل ہیں۔ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو منانے سے من جائیں گے اور کتنے اڑے رہیں گے یہ کہنا مشکل ہے مگر ہماچل میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہیں۔ وہاں کم و بیش ۲۲ ؍ناراض اراکین میں سے تین چار ہی اپنے ناراضگی کو بالائے طاق رکھ سکے، بقیہ تمام نے ناراضگی برقرار رکھی۔ ان میں سے ایک کا تو ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گشت کرتا رہا جسے دیکھ کر اور سن کر محسوس ہوتا ہے کہ ان سے کوئی اور نہیں، خود وزیراعظم مخاطب ہیں جو کہتے ہوئے سنے گئے کہ آپ چناؤ سے ہٹ جائیے۔ اس سے بی جے پی کی پریشانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہماچل کی سیاست پر نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سے ایک اندرونی چپقلش ہے۔ تو کیا ہماچل کی طرح گجرات میں بھی بی جے پی کو ایسی ہی مشکلات جھیلنی پڑیں گی، یہ کہنا مشکل ہے مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی معاملات کو نمٹانے کی بھرپور طاقت اور صلاحیت رکھتی ہے اس لئے اگر گجرات کے ناراض اراکین کو منانے میں کامیاب ہوجائے تو باعث حیرت نہیں ہوگا۔ مگر، ان حالات میں بی جے پی کے اہل اقتدار کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اس کے ذریعہ دیگر پارٹیوں کے ممبران اسمبلی کو اپنی جانب راغب کرنے اور انہیں اپنی صفوں میں شامل کرنے کی جو کوشش ہوتی ہے وہ کہاں تک درست ہے۔ دیگر پارٹیوں میں بھی روٹھنے یا ایسا تاثر دے کر پارٹی پر دباؤ ڈالنے کی روایت ملتی ہے مگر اب اس قسم کے معاملات میں شدت آگئی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ اکا دکا لوگ ناراض نہیں ہوتے بلکہ کھیپ کی کھیپ ہوتی ہے۔ اس دوران ایک اور منفی رجحان بہت تیزی سے مستحکم ہوا ہے۔ وہ پارٹی بدلنے کا رجحان ہے۔ لوگ اگر پارٹی کے امکانات یا کارکردگی یا اس کے طرز عمل میں تبدیلی وجہ سے پارٹی چھوڑ دیں تو سمجھ میں آتا ہے مگر کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کیلئے پارٹی چھوڑنا عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے نظریاتی وابستگی شک کے دائرے میں آجاتی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ نظریاتی تضاد کے باوجود لوگ پالا بدل لیتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی سیاستکار یا سیاستداں ذاتی مفادات کے تحت کسی دوسری پارٹی کو قبول کرلیتا ہے تو سمجھا بھی جاسکتا ہے مگر دوسری پارٹی اسے قبول کیسے کرلیتی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر پورا ملک گواہ ہے کہ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جاتے وقت نظریات رکاوٹ نہیں بنتے۔ یہ اس دور کا بڑا المیہ ہے۔ اگر نظریات اتنے ہی بے قیمت ہیں تو ان کی اتنی تشہیر کیوں کی جاتی ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ اب الیکشن جیتنا ہی سب کچھ ہوگیا ہے۔ اس کیلئے روپے پانی کی طرح بہانا تو پہلے بھی تھا مگر اب اس دریا میں ایسی طغیانی ہے کہ الیکشن کمیشن خود نہیں بتاسکتا کہ کس الیکشن پر کتنا خرچ ہوا۔ اقتدار کیلئے ہر طرح کے سمجھوتے کرنا بھی عام ہوگیا ہے۔ یہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے، سمجھوتوں کی سیاست کیا کچھ دکھائے گی اور سیاست اپنا اعتبار مکمل طور پر گنوا دینے کے بعد دوبارہ اعتبار حاصل کرنا چاہے گی بھی یا نہیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK