Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک طمانچہ جس نے اسکولوں کے قیام کی مہم شروع کرنے کی تحریک دی

Updated: January 31, 2024, 1:33 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

مظفر نگر میں  ایک مسلم طالب علم کو طمانچہ مارنے کے واقعہ نے پورے ملک کے باضمیر افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا۔اسی واقعہ نے اس بات کی تحریک دی کہ کیوں نہ گاؤں گاؤں اسلامی اسکول قائم کئے جائیں تاکہ مسلم طلبہ کو نہ صرف اس طرح  کے واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے بلکہ تعلیم کے نام پر انہیں اپنی اسلامی شناخت اور تہذیب سے دور کرنے کی کوششیں بھی ناکام بنائی جائیں۔

The incident of the Muslim student in Muzaffarnagar led Maulana Muhammad Salman Khurshid and his colleagues to demand that village-to-village Islamic schools be established. Photo: INN
مظفر نگر میں مسلم طالب علم کے واقعہ نے مولانا محمد سلمان خورشید اوران کے ساتھیوں میں داعیہ پیدا کیا کہ گاؤں گاؤں اسلامی اسکول قائم کئے جائیں۔ تصویر : آئی این این

اتر پردیش کے مظفر نگر میں ایک مسلم طالب علم کو اس کے ساتھیوں   کے ہاتھوں  پٹوانے کے ویڈیو نے پورے ملک کے باضمیر افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ سپریم کورٹ تک نےا س معاملے کا نوٹس لیا اور یوپی سرکار کی سرزنش کی نیزاسے قرار واقعی کارروائی کی ہدایت دی۔ کارروائی کتنی ہوئی اور مذکورہ ٹیچر کو کس حدتک سزا ملی، اس سے وہ لوگ واقف ہیں  جو خبروں  پر نظر رکھتے ہیں مگر کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ واقعہ اسکولوں  کے قیام کی مہم کا باعث بن گیا۔ دیگر افراد کی طرح علماء کے ایک گروپ بھی مظفر نگر کے اس واقعہ سے ذہنی طورپر بری طرح متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا مگر اس کا ردعمل اظہار ہمدردی اور افسوس تک محدود نہیں  رہا بلکہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ کیوں  نہ گاؤں  گاؤں   اسکول قائم کئے جائیں  تاکہ مسلم طلبہ کو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
اس کیلئے المیزان اسکولز کے نام سے باقاعدہ ادارہ قائم کیاگیا۔ مولانا محمدسلمان خورشیداس کے چیئرمین ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں میرٹھ سے عالمیت اور ۲۰۱۵ء میں   دارالعلوم دیوبند سے افتاء کے بعد یو پی بورڈ سے اردو میں ایم اےکرنے والے مولانامحمد سلمان خورشید نے بتایا کہ ان کا گروپ گاؤں  گاؤں   اسلامی اسکول قائم کرنےکا منصوبہ رکھتا ہے۔ المیزان اسکولز کا دفتر دہلی میں ہے لیکن مولانا خورشید کا تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں بھیونڈی آناجانا لگا رہتا ہے۔ ان سے ہونے والی بات چیت یہاں  پیش کی جارہی ہے: 
سوال: اسلامک اسکول شروع کرنے کا خیال کیسے آیا؟
میں ممبئی کے سفر پر تھا تب مظفر نگر کا واقعہ پیش آیا جس میں ایک ٹیچر نے ایک طالب علم کواس کے ساتھ پڑھنے والےدیگر طلبہ سے تھپڑ لگوائے جس کا کسی نےویڈیو بنا لیاتھا اور وہ بہت زیادہ وائرل ہوا۔ اس کے بعد اس خاتون نے بہت زیادہ بدتمیزی کے ساتھ کہا تھا کہ میں تو انہیں اسی طرح مار کھلاتی ہوں۔ اس نے بطور خاص بچے کے مسلمان ہونے کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد کچھ اور واقعات بھی سامنے آئے۔ میرے ذہن میں پہلے سے تھا کہ ہمارے اسلامی اسکول ہونے چاہئیں  ۔ تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا میرا خواب ہے جس کیلئے میں ۲۰۱۴ء میں اپنی فراغت کے بعد سے کوشاں ہوں میں نے محسوس کیا بلکہ مشاہدہ کیا کہ اس وقت عصری تعلیم گاہیں تعلیم سے زیادہ بزنس پر توجہ دے رہی ہیں۔ کئی اسکول مسلمانوں کی نئی نسل کو تعلیم فراہم کرنے کے نام پر عقیدہ اور مذہبی شناخت کو مٹانے پر کمر بستہ ہیں اس لئے یہ داعیہ پیدا ہوا کہ جس طرح علماء نے دینی تعلیم کے میدان کو سنبھالا ہے اسی طرح عصری تعلیم کے نظام کو بھی کمانڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلم تہذیب و تمدن کی حفاظت بھی کی جاسکے اور عصری تعلیم گاہوں سے تعلیم یافتہ بچے اور بچیاں جس میدان میں بھی جائیں اپنے دین اور ثقافت کے نمائندے بن کر ملک و ملت کی خدمت کریں۔ 
مظفر نگر کے طمانچے والے واقعہ کے فوراً بعد ہم چند علماء جن میں  بھیونڈی کے مفتی حذیفہ، مولانا تہذیب، قاضی مطیع الرحمٰن شامل ہیں، بھیونڈی میں بیٹھے اور طے ہوا کہ فوری طور پر اسلامی اسکول شروع کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اس کے بعد دہلی میں ہم نے ایک میٹنگ بلائی جس میں اس پر اتفاق ہوا اور اس کے بعد سے ’المیزان اسکولز‘ کے نام سےاسکولیں شروع کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ 
سوال: یہ اسکول دیگر اسلامک اسکولوں سے مختلف ہوں گے یا اسی طرز پر ہوں گے؟
 ہمارا انداز قدرے مختلف ہوگا۔ بزنس کا نقطہ نظر چھوڑ کر ملی خدمت کا جذبہ اصل ہے اسی طرح اپنے مذہب اور ثقافت سے کسی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ہم نے دیکھا ہے کہ ’فن اور کلا‘ کے نام پر مختلف غیر اسلامی چیزیں مثلاً رقص، موسیقی اور بہت سی لعنتوں کو اکثر مسلمانوں کے اسکول بڑے فخر سے اپناتے ہیں ہمارے اسکول انشاءاللہ ان تمام غیر شرعی چیزوں سے پاک ہوں گے۔ 
سوال: آپ کا کتنے اور کن علاقوں میں اسکول شروع کرنے کا ارادہ ہے؟ مقاصد پر بھی روشنی ڈالیں ؟
  ہمارا ہدف تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ہمارے اسکول اور کالج ہوں تاکہ ملک و ملت کو زیادہ سے زیادہ ایسے افراد مہیا ہوسکیں جو اپنے دین پر گامزن رہتے ہوئے فخر سے ملک و ملت کی بہترین اور بھرپور خدمات انجام دے سکیں۔ 
سوال: اسکول کا رجسٹرڈ ہونا اہمیت کا حامل ہوتا ہے تو اسکول رجسٹریشن کرنے کی کارروائی کس سطح پر ہے؟
 المیزان اسلامک اسکولنگ سسٹم کے تحت قائم ہونے والا ہر ہر اسکول تمام قانونی تحفظات کے ساتھ (ہر علاقے کے تعلیمی پالیسی کے مطابق)قائم کیا جائیگا۔ رجسٹریشن کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں مختلف اجازت ناموں کی ضرورت ہوتی ہے انشاءاللہ ہر ہر صوبے کے قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسکولوں کا قیام ہوگا۔ 
  ملک کے حالات کی وجہ سے اسکول شروع کرنے میں کچھ تاخیر ہوگئی ہے سروے وغیرہ کا کام رک گیا تھا۔ البتہ آئندہ ماہ (فروری میں ) میرٹھ، باغپت اور مظفر نگر میں اسکول شروع ہونے کی امید ہے۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے اس لئے کرایے کی جگہ یا کچھ افراد نے اپنی جگہ استعمال کرنے دی ہے ان جگہوں پر اسکول شروع کیا جائےگا۔ ہاں المیزان کی ۳؍ شاخیں ایسی ہیں جہاں پر سینٹرل کمیٹی خود عمارت بنا کر اسکول چلائے گی۔ اس میں ابھی وقت لگے گا۔ 
سوال: اگر گائوں دیہاتوں  میں اسکول شروع کئے جائیں گے تو کیا طلبہ فیس دے سکیں گے؟
جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہمارا مقصد بزنس نہیں، خدمت ہے اس لئے ہمارا کورس اور ڈریس انتہائی مناسب قیمت میں طلبہ کو دستیاب ہوگا اس کے بعد بھی ایک بڑا طبقہ ایسا ہو سکتاہے جو اس بار کا تحمل نہیں کر سکتا۔ ایسے افراد کیلئے’قریش کانفرنس‘ کے زکوٰۃ فنڈ اور کل ہند رفاہی تعلیمی فاؤنڈیشن (ٹرسٹ) کے فنڈ سے مدد حاصل کی جائے گی۔ 
سوال: اچھے اساتذہ اچھی آمدنی کی خواہش بھی رکھتے ہیں تو اساتذہ کی تنخواہوں کا انتظام، اسکول میں معیاری تعلیم کے نظم کے اخراجات وغیرہ کا انتظام کیسے ہوگا؟ 
جواب: ظاہر ہے کہ مکمل کامیابی کیلئے محنت بھی مکمل درکار ہوتی ہے اس لئے تنخواہوں کا معیار رفتار زمانہ کے مطابق رکھنے کی بھرپور کوشش کرینگے انشاء اللہ اور اگر کسی اسکول میں فیس کی آمدنی نظام کو چلانے کیلئے ناکافی ہوگی تو اس اسکول میں مستحق طلباء کیلئے زکوٰۃ فنڈ کا قیام ہوگا اس کے علاوہ تعلیم دوست احباب کی ذہن سازی کرکے اسکول کے اخراجات مکمل کرنے کی کوشش کرینگے۔ 
سوال: اگر غیرمسلم طلبہ آپ کے اسکولوں میں داخلہ لینا چاہیں اور دینی تعلیم کے بجائے دیگر مضامین کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو کیا ان کیلئے کوئی انتظام ہوگا؟
  اسلام ہم کو پوری انسانیت کی فلاح کی طرف متوجہ کرتا ہے جیسا کہ حدیث ہے ’خیر النّاس من یّنفع النّاس‘ یعنی لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے اس لئے ہمارے اسکولوں کے دروازے ان کیلئے بھی کھلے رہیں گے اور جو بھی بہتر سے بہتر ترتیب بنے گی اس پر عمل کیا جائیگا انشاء اللہ۔ 
سوال: کس بورڈ سے الحاق کیاجائےگا؟
 ہمارا کورس اور نصاب تعلیم کچھ اہم اور ضروری تبدیلی کی ساتھ ملک کے مشہور اور اچھے تعلیمی بورڈ ’سی بی ایس ای‘ بورڈ کے مطابق ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK