Inquilab Logo

چیلنج قبول کیجئے اور فاتح بنئے

Updated: February 03, 2023, 1:26 PM IST | Mirza Yawar Baig | Mumbai

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ اپنا جائزہ لیجئے اور غور کیجئے کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں اور کیسی مطلوب ہے

It has been clearly stated in the Holy Qur`an that man has to serve Allah
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہے کہ انسان کو اللہ کی بندگی کرنی ہے


زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا
’’ اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔‘‘(النجم:۳۹)
غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ `پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔
 لہٰذا اپنے آپ سے پوچھنے اور جواب سننے کے لئے، آپ کو اس بیرونی شور کو بند کرنا ہوگا، جو ہم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے۔ آپ اپنے دل کی بات سن سکتے ہیں، یا فون کو سن سکتے ہیں، آپ دونوں ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔ براہِ مہربانی غور کریں آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں، `میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟ یا `کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں ضرور ناکام ہو جاؤں گا۔ دونوں جملےحقیقت نہیں ہیں، لیکن آپ کے لئے، دونوں درست ہو سکتے ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر فریڈولن اسٹاری مجھے بتاتے ہیں کہ جرمن زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’اُمید آخر میں مرتی ہے۔‘‘  ہمیں امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہئے، اور اُمید کو حقیقت بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ لہٰذا، پوچھیں کہ آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور توکّل کے تعلق کے بارے میں فرمایا:
’’مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے رب پرمکمل بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ (الانفال:۲) 
 آپ براہِ مہربانی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپؐ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جس چیز نے  آپ کو برقرار رکھا اور سہارا دیا وہ اللہ سے آپؐ  کا تعلق تھا اور اللہ آپؐ کے لئے حقیقت تھا۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو فرماتے
(ترجمہ) ’’اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لئے زیبا ہے ، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لئے مناسب ہے۔ آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لئے ہے اور تعریف تیرے ہی لئے ہے ، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لئے زیبا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ، تیری ملاقات سچی ، تیرا فرمان سچا ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے ، انبیاء ؑ سچے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں ، تجھی پر بھروسا ہے،  تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ، تیرے ہی عطا کیے ہوئے دلائل کے ذریعے بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں ، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما ، خواہ وہ ظاہر میں ہوئی ہوں یا پوشیدہ ، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے ، معبود صرف تو ہی ہے ۔
 ہمارا سب سے بڑا پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ ایک تصور اور ایک خیال ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حقیقت ہیں ؟ اس بات کی نشانی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حقیقت ہیں ، ہمارے اعمال میں مضمر ہے۔ جن کے لئے اللہ تعالیٰ حقیقت ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے لئے کچھ نہیں کرتے۔ یہی تقویٰ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خوف ہے، چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔
سب سے مشکل کام لوگوں کے ذہنوں، عقائد اور رویوں کو بدلنا ہے، لیکن یہ وہ کام تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے سپرد کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام سونپتے وقت، مقصد کو پورا کرنے کے لئےکوئی مادی مدد نہیں دی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مؤرخ الفونس ڈی لامارٹین جیسے شخص نے بھی جو اسلام پر بہت تنقید کرتا تھا، اپنی کتاب تاریخ   ترکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر مقصد کی عظمت، اسباب کی کمی اور حیران کن نتائج تین معیار ہیں ایک انسانی ذہانت کا، تو کون تاریخ کے کسی عظیم انسان کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘
یہیں سے عقیدہ کے یقین کا مسئلہ آتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی دعوت میں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ امتیازی خوبی، آپؐ  کا اپنے پیغام کی سچائی اور اہمیت پر مکمل ایمان، اعتماد اور یقین تھا۔ اس کے بغیر آپؐ کبھی اپنی کوشش کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے اور کامیابی کا بظاہر کوئی نشان نہ ہونے کے باوجود مسلسل اپنی پوری کوشش کرتے رہے۔ یہی مقصد کی طاقت ہے۔ جب آپ اپنے مقصد کو جانتے ہیں، تو یہ آپ کو مضبوط کرتا ہے ، یہ آپ کو توجہ مرکوز رکھنے اور اپنے خوف سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔
 مشہور مصنف مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’ہر آدمی کی دو سالگرہ ہوتی ہیں، جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور جس دن اسے پتہ چلا کہ کیوں؟‘‘ میں جانتا ہوں کہ میں کس دن پیدا ہوا تھا، لیکن کیا یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں پیدا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس لئے پیدا کیا؟ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے، جس کی بنیاد پر میرا فیصلہ کیا جائے گا؟ اب ذرا خاموشی سے بیٹھیں اور اپنے آپ سے تین سوال پوچھیں
۱-میں کیوں زندہ ہوں؟
۲-کیا کھوجائے گا اور کس کے لئے، جب میں اس زندگی سے رخصت ہو جاؤں گا؟
۳- میں اپنے وجود کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے کیا کر رہا ہوں؟
یاد رکھیں کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں اور جو آپ کو سب سے بہترین نتائج دے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ فرق پڑتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی قابل قدر ہو یا نہیں، یہی آپ کی حقیقی سالگرہ ہوگی۔  وہ دن نہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تھے، بلکہ جس دن آپ کو معلوم ہوا کیوں پیدا ہوئے؟ جو زندگی، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے گزاری گئی، انسان کی زندگی ہے، جو زندگی ہرخواہش اور شوق کو پورا کرنے کے لئے گزاری گئی، وہ تو محض ایک جانور کی سی زندگی ہے۔ ہمیں اپنے لئے انتخاب کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا
’’میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔‘‘
(الذاریات:۵۶-۵۸) (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK