Inquilab Logo

اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے

Updated: December 02, 2022, 12:10 PM IST | Mumbai

خاندان کی بہتری اور بھلائی یا ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس کو مضبوط بنایا جائے اور ایک مضبوط، صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آئے۔

Islam has a broad concept of family which includes not only husband and wife and children but also grandparents, great grandparents, uncles, aunts, uncles and aunts etc.; Photo: INN
اسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے جہاں صرف میاں بیوی اور بچے ہی نہیں بلکہ دادا دادی، نانا نانی، چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں؛تصویر:آئی این این

خاندان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ترین اور بنیادی ادارہ ہوتا ہے۔ خاندان قوم کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی اقدار و روایات کو استحکام اور پائیداری اور طاقت فراہم کرتا ہے  چنانچہ خاندان جتنا مضبوط ہوگا، قوم متحد ہوگی اور معاشرے کی تہذیب و تمدن، امن و سلامتی اور خوش حالی میں پائیداری اور استحکام پایا جائے گا۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں مضبوط ہوں گی۔
اسلام کا تصورِ خاندان
اسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں صرف میاں بیوی اور بچے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ دادا دادی، نانا نانی، چچا، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام خاندان کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض اور خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈوریوں سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرہ کے جملہ اُمور و معاملات کی اساس اخلاق کو بناتا ہے۔
اسلام کے نزدیک خاندان معاشرے کا بنیادی ادارہ ہے جس کی بہتری اور بھلائی یا ابتری اور بربادی پر معاشرے کی حالت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلام نے خاندان کی طرف خصوصی توجہ دی ہے تاکہ اس ادارے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے اور ایک مضبوط، صالح اور فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آئے جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ خاندان جو کسی معاشرے کی اساس ہے، آج کن مسائل سے دوچار ہے، اور ان سے نمٹنے کا طریقہ کار یا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے۔
خاندان کو لاحق ممکنہ خطرات
آج کا دور انتہائی پُرفتن دور ہے لیکن ایسا کہنا درست نہ ہوگا کہ ایسا دور انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا اس لئے اس سے نمٹنا ممکن نہیں۔ اس طرح کے حالات سے دنیا ہمیشہ دوچار رہی ہے۔ البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنسی ایجادات کے اس دور نے فتنوں سے نمٹنا مشکل بنا دیا ہے۔   یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے حالات میں فتنوں سے نمٹنا انتہائی مشکل اور صبرآزما کام ہے۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تمام انبیائے کرام پر فتنوں کا ایسا دور گزر چکا ہے اور پچھلی قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوئیں تو حیوانیت کے درجے کو بھی پیچھے چھوڑ گئیں۔ آج کے دور میں معاشرے کا اہم اور بنیادی ادارہ یعنی خاندان شکست و ریخت کا شکار ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ سے بغاوت کرنے والی اقوام اور مذہب سے بیزار انسان اس شکست و ریخت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔سائنس اور تکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک ’گلوبل ولیج‘ کی شکل دے دی ہے۔ چنانچہ مغربی افکار و خیالات نے ہمارے دینی عقائد اور خاندان کو بھی متاثر کیا ہے۔ چنانچہ خاندان کو لاحق خطرات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بیرونی خطرات ہیں تو کچھ اندرونی خطرات۔
بیرونی خطرات
  ہماری نئی نسل مغربی افکار و نظریات کی دیوانہ وار تقلید کرنے کے لئے دوڑی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے شیطانی نظریات دو طرح سے ان پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک تو فلم اور ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے، دوسرے ان تعلیمی اداروں کے ذریعے جن کا مقصد مسلمانوں کو بگاڑنا اور ان کو دین کی تعلیمات سے دُور لے جانا ہے۔
 نوجوان نسل میں لباس، خوراک اور بودوباش کے مغربی طور طریقے رائج ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں فحش اور بیہودہ ویب سائٹس،  سیکڑوں    ٹی وی چینلز پر چلنے والی ذہنی و نفسیاتی تباہی کا باعث بننے والی فلموںاور اشتہارات نے اخلاقیات کو شدید متاثر کیا ہے۔ 
اندرونی خطرات
 معاشرے کے اہم ترین یونٹ یا ادارے (خاندان) کی بنیاد رکھنے والے عوامل سے بغاوت یا پہلوتہی نے نکاح کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ چنانچہ نکاح کے راستے میں آنے والی جن رکاوٹوں کو اسلام نے دُور کیا تھا ہم مسلمانوں نے انہیں پھر سے واپس لاکھڑا کیا ہے۔  ان عوامل کا مختصر جائزہ پیش ہے جو نکاح کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں:
۱- مناسب عمر میں نکاح سے گریز: اسلام کے مطابق ایک مسلمان لڑکا اور لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچ کر نکاح کے قابل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حکم ہے کہ اپنے نوجوانوں کے نکاح جلد از جلد کرو۔
 ہمارے ہاں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی دیر سے کرنے کا رواج خاندان کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ خود لڑکے اور لڑکیاں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے یا ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے  یا تعلیمی میدان میں مقابلہ بازی کیلئے اس معاشرتی ضرورت اور اسلامی فریضے سے دور بھاگتے ہیں بلکہ جان چھڑاتے ہیں۔
۲-            مادہ پرستی:جوں جوں مسلمان اسلام سے دُور ہو رہے ہیں مادہ پرستی ان پر غالب آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کے جذبات جو ایک خاندان کی بقا و سلامتی اور سکون کے لئے لازمی جز ہیں، ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ شوہر بیوی کے لئے قربانی دینا چاہتا ہے نہ بیوی شوہر کے لئے۔ پھر دونوں بچوں کے لئے قربانی دینے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک دوجے  سے قربت کے بجائے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔  اصل میں نکاح کے لئے نبی اکرمؐ نے جو شرط عائد کی ہے، وہ اس حدیث سے واضح ہے۔ فرمایا: ’’عورتوں سے ان کے حُسن و جمال کی وجہ سے شادی نہ کرو، ہو سکتا ہے کہ ان کا حُسن ان کو تباہ کرے۔ اور نہ ان کے مال دار ہونے کی وجہ سے شادی کرو، ہو سکتا ہے کہ ان کا مال انہیں طغیان اور سرکشی میں مبتلاکردے بلکہ دین کی بنیاد پر شادی کرو۔‘‘ (بخاری،مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ)
 ۲-   نکاح کی تقریب پر فضول خرچی: ہمارے معاشرے میں نکاح اور ولیمے کی تقریبات پر اپنی بساط سے بڑھ کر اخراجات کرنے کا رجحان فیشن سے تجاوز کر کے ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق نکاح کے عمل کو سادہ اور سہل ہونا چاہئے۔ نہ تو اسلام بھاری بھرکم جہیز کی اجازت دیتا ہے، نہ بھاری بھرکم مہر کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور نہ اصراف کو۔
۴-            بے جوڑ شادیاں: شریعت اسلامی میں نکاح کے معاملے میں کفو، یعنی مرد اور عورت کا چند خاص امور میں ہم پلہ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ان امور کی تعداد چھ بتائی جاتی ہے: خاندان، اسلام یعنی دینداری،  پیشہ، حریت، دین اور مال۔
آج کل بے جوڑ شادیاں ہو رہی ہیں۔ لوگ پیسہ دیکھ کر لڑکی دیتے ہیں، نہ ان کا حسب نسب دیکھا جاتا ہے، نہ خاندان کا پس منظر۔ اسی طرح کردار کی تحقیق بھی نہیں کی جاتی۔ چنانچہ بعض مرتبہ اس قدر سنگین نوعیت کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یا تو لڑکی گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہے، یا طلاق یا خلع کے ذریعے علاحدگی اختیار کرکے اپنے ساتھ اپنے والدین کے لئے بھی مسائل و مصائب کا باعث بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاندان کی بنیادوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لئے،  جب رشتہ طے کیا جاتا ہے تب ان امور کا خیال رکھنا اور ذمہ داری کے ساتھ رشتہ طے کرنا، ایک نئے خاندان کو مضبوط بنیاد فراہم کرتاہے۔
۵-  نان و نـفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کرنے اور نکال دینے کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں نفقہ کے معنی اس خرچ کی ذمہ داری ہے جو شوہر پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی تکمیل کیلئے یا اسے پورا کرنے کیلئے ضروریات کا مہیا کرنا ہے۔ اس میں کھانا، لباس، گھر اور دوسری متعلقہ چیزیں جن کی زندگی میں ضرورت پڑتی ہے، شامل ہیں۔اس کی شرعی حیثیت ’امر واجب‘ کی ہے۔
دین سے دُوری
خاندان کی شکست و ریخت کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کا زیادہ تر تعلق دین سے دُوری سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت جو کام ہوگا وہ یقیناً آسان ہوگا۔ ایک خاندان کے افراد آپس میں اتفاق، یگانگت اور میل محبت سے اسی وقت رہ سکتے ہیں جب ان میں ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال و اہمیت اور ایثار و قربانی کا جذبہ ہو۔ نیز خاندان کی تشکیل اور بقا و سلامتی میں جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان سے یہ افراد اچھی طرح واقف ہوں۔ والدین کے حقوق، والدین کی اطاعت اور بزرگوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت اور رواداری کا برتائو، روپے پیسے اور دیگر اشیاء کی منصفانہ تقسیم، والدین کا اولاد کے لئے قربانیاں دینا، ان کی جائز ضرورتوں کا جائز آمدنی سے پورا کرنا، انہیں اچھے بُرے کی تمیز سکھانا، ان میں دینی شعور بیدار کرنا، ان کی تعلیم و تربیت صحیح خطوط پر کرنا، انہیں درست سمت میں چلنے کی ہدایت کرتے رہنا اور حقوق العباد ادا کرنے کی تلقین و تربیت کرنا،  ایک اچھے،  مہذب، مضبوط اور خوش حال خاندان کی بنیاد رکھنے میں معاون و مددگار عوامل ہیں۔
اگر خاندان کو لاحق خطرات کا تجزیہ کیا جائے تواس کا ممکنہ حل تلاش کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو دین کے زیادہ سے زیادہ قریب لایا جائے، خصوصاً نوجوان نسل میں دینی شعور اور مذہبی جذبات کو بیدار کیا جائے اور خرافات سے بچا  جائے۔ 

FAMILY ISLAM Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK