Inquilab Logo

ہماچل کے بعد: کارِ جہاں دراز ہے

Updated: December 15, 2022, 2:12 PM IST | Mumbai

یہ کہنا کہ ہماچل کے رائے دہندگان نے ایک پارٹی کے بعد دوسری پارٹی کی حکومت منتخب کرنے کی اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی لئے کانگریس کو اقتدار بخشا ہے، زیادتی ہوگی۔ کانگریس کی فتح کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہئے

photo;INN
تصویر :آئی این این

 یہ کہنا کہ ہماچل کے رائے دہندگان نے ایک پارٹی کے بعد دوسری پارٹی کی حکومت منتخب کرنے کی اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی لئے کانگریس کو اقتدار بخشا ہے، زیادتی ہوگی۔ کانگریس کی فتح کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔ ویسے تجزیہ کاروں یا مبصرین سے زیادہ خود کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ عوام سے جڑنے کی جس کوشش، حکمت عملی اور محنت سے اس نے فتح کی راہ ہموار کی اور پوری طاقت جھونکنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے دانت کھٹے کئے اس کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اِس فرض کی ادائیگی ہماچل کے ہر چھوٹے بڑے کانگریسی پر لازم ہے تاکہ کامیابی کے اس فارمولے کو دوسری ریاستوں میں رو بہ عمل لا کر وہاں بھی ہماچل کی تاریخ دہرائی جاسکے۔
  اس پر محنت اس لئے ضروری ہے کہ جلد یا بہ دیر راجستھان، کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات بھی ہونے ہیں۔ ہماچل کی طرح اگر مدھیہ پردیش ہاتھ آگیا جو سابقہ الیکشن کے بعد حکومت بننے کے باوجود ہاتھ سے نکل گیا تھا اور ادھر راجستھان میں ۲۰۱۸ء جیسے نتائج برآمد کرلئے گئے تو ان فتوحات سے ملنے والا حوصلہ اس عظیم و قدیم پارٹی کو نئی قوت، توانائی، خوداعتمادی اور وسائل بھی فراہم کریگا۔ ان چند فتوحات کے بعد بی جے پی میں کانگریس مُکت بھارت کا نعرہ لگانے کی جرأت باقی نہیں رہ جائیگی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ برسوں میں کانگریس کے امکانات کم نہیں ہوئے تھے مگر اب خاصے بڑھ گئے ہیں۔ ملک کے موجودہ ماحول میں حکمت عملی اور محنت کے ذریعہ اس کے امکانات روشن ہیں۔ تب ہی اتنی توانائی اور وسائل خرچ کرکے جاری کی گئی بھارت جوڑو یاترا کا فائدہ بھی ملے گا۔ 
 بھارت جوڑو یاترا کے دیگر وسیع تر اور زیادہ اہم فوائد سے اس کالم میں کئی بار بحث کی جاچکی ہے مگر جمہوریت میں الیکشن اہم ہے اور الیکشن میں کامیابی اہم ہے اس لئے کانگریس کے ارباب حل و عقد یاترا کی مقبولیت کو پارٹی کی مقبولیت میں تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ صحیح سمت میں محنت اور درست حکمت عملی ہی کانگریس کو موجودہ دو ریاستوں کے اقتدار سے چار اور چار سے آٹھ ریاستوں کے اقتدار کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہماچل میں کانگریس نے اُن عوامی مسائل کو موضوع بنایا جن کے سبب وہ بی جے پی سے بددل ہوگئے تھے۔ مسائل کی یہ سنگینی صرف ہماچل میں نہیں تھی۔ ہر ریاست میں ہے۔ گجرات میں بھی تھی مگر کانگریس نے فی الحال گجرات پر محنت نہ کرنے کو ترجیح دی کیونکہ اس کی توجہ ’’مشکل ریاست‘‘ پر مرکوز ہوتی تو ’’آسان ریاست‘‘ کا حصول ممکن نہ رہ جاتا۔   
 یہ حکمت عملی قابل تعریف تو نہیں تھی مگر بحالت مجبوری گوارا کی جاسکتی تھی تاہم اب کرناٹک اور راجستھان کو ہماچل جیسی کامیابی سے سرفراز کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد اِس سلسلۂ فتوحات کو مدھیہ پردیش تک پہنچنا چاہئے۔ اکثر لوگ ۲۰۲۴ء کی بات کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں ۲۰۲۴ء سے زیادہ اہم ۲۰۲۳ء ہے جس میں مذکورہ ریاستوں کے علاوہ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ سمیت مجموعی طور پر ۱۰؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونگے۔ اگر شمال مشرقی ریاستیں مختصر ہونے کے باوجود مشکل ہوں کیونکہ یہ ریاستیں مرکز کی حکمراں جماعت کا ساتھ دیتی آئی ہیں تو کانگریس کیلئے لازم ہے کہ دیگر ریاستوں میں سے کم از کم چار (راجستھان، ایم پی، کرناٹک اور چھتیس گڑھ) کو ابھی سے ہموار کرنا شروع کرے۔ ہماچل سے جو سفر شروع ہوا ہے اُس کو ۲۰۲۳ء میں جاری رکھا گیا تو ۲۰۲۴ء آسان ہوجائیگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK