Inquilab Logo

زرعی قوانین اور کسانوں کے خدشات

Updated: January 22, 2021, 11:32 AM IST | Shamim Tariq

سپریم کورٹ نے ان تینوں قوانین پر جنہیں واپس لئے جانے پر کسان مصر ہیں فی الحال روک لگا دی ہے۔ مگر یہ روک (عدالتی زبان میں اسٹے) عارضی ہے یعنی سپریم کورٹ یہ روک ختم بھی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کسان تحریک کا مستقبل کیا ہوگا ....؟

Farmers Protest - Pic : PTI
کسانوں کا احتجاج ۔ تصویر : پی ٹی آئی

کسان اَڑے ہیں کہ قانون واپسی نہیں تو گھر واپسی نہیں اور حکومت نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں قانون واپس نہیں لے گی۔ سپریم کورٹ نے ان تینوں قوانین پر جنہیں واپس لئے جانے پر کسان مصر ہیں فی الحال روک لگا دی ہے۔ مگر یہ روک (عدالتی زبان میں اسٹے) عارضی ہے یعنی سپریم کورٹ یہ روک ختم بھی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کسان تحریک کا مستقبل کیا ہوگا یعنی جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے کسان تحریک دو ماہ کی مدت پوری کررہی ہوگی۔ کیا اس کے بعد بھی وہ کسان ڈٹے رہیں گے جن کا لوہا مان کر زمین سونا اُگلتی ہے۔ اس کا جواب تو شاید کوئی نجومی ہی دے سکے، ہم جیسے لوگ تو صرف تجزیہ کرسکتے ہیں کہ 
(۱) وہ قوانین کیا ہیں جن کی واپسی پر کسان اَڑے ہوئے ہیں۔
(۲) حکومت جو ترمیم کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے مگر قوانین کو واپس لینے پر رضا مند نہیں اس کے کیا دلائل ہیں اور
(۳) کسان حکومت کے موقف یا دلائل سے کیوں متفق نہیں ہیں۔
 تینوں قوانین ۲۰۲۰ء میں نافذ کئے گئے ہیں۔ ان میں سے پہلے قانون کے مطابق کسان اپنی پیداوار کو منڈیوں کے باہر بھی بیچ سکتے ہیں۔ اس میں پیداوار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے خرچ کو کم کرنے اور انٹرنیٹ سے کاروبار کرنے کی بھی سہولت دی گئی ہے مگر اس کی دفعہ ۱۳ ؍ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی یا ریاستی حکومت کے کسی افسر کے خلاف مقدمہ یا کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح دفعہ ۱۵ کے مطابق کوئی بھی سول کورٹ اس قانون کے تحت کسی معاملے کی سماعت نہیں کرسکتا۔ بظاہر یہ فائدے کا سودا ہوگا اور حکومت بھی یہی کہتی ہے مگر کسان یونین اور اس کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس قانون میں منڈیوں کے باہر پیداوار بیچنے کی سہولت دی گئی ہے مگر جیسے ہی وہ کام جو صرف منڈیوں میں کیا جاتا تھا کہیں بھی کیا جانے لگے گا تو بڑی کمپنیاں اور سرمایہ دار کھیل کھیلنا شروع کردیں گے اور بالآخر ایک دن منڈی ہی ختم کردی جائے گی۔
 اس قانون کو سول کورٹ کے دائرئہ اختیار سے باہر رکھ کر فیصلہ کرنے کا اختیار ایس ڈی ایم اور اے ڈی ایم کو دیا گیا ہے اور اس سے عدلیہ کی زیر نگرانی انتظامیہ کے ہونے کے بجائے انتظامیہ کے ماتحت عدلیہ کے ہوجانے کا امکان بڑھ گیا ہے جو دستور کی روح کے منافی ہے۔ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی کسانوں میں نہ تو طاقت ہے نہ اتنی جانکاری کہ وہ انتظامیہ کے فیصلے کر چیلنج کرسکیں۔ ایسی صورت میں فائدہ بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو ہی ہوگا۔ وزیر اعظم سمیت حکمراں پارٹی کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ایم ایس پی یعنی خریداری کی کم از کم قیمت کا تعین پہلے ہی جیسا رہے گا مگر کسان اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
 حکومت نے جو دوسرا قانون نافذ کیا تھا جس سے کسان مطمئن نہیں ہیں اس کے مطابق کنٹریکٹ فارمنگ یعنی معاہدے کی بنیاد پر کھیتی کی جاسکتی ہے یعنی زمین کسی کی ہو اور اس پر کھیتی کوئی اور کرے یا کسان تھوک کارباریوں، ایکسپورٹ کرنے والوں سے پہلے ہی دام طے کرلے اور اس کے لئے کھیتی کرے۔ اس قانون میں ایسی دفعات ہیں جن سے کسانوں کو کوئی نقصان نہ ہو۔ نقصان ہو بھی تو وہ معاہدہ کرنے والی کمپنی یا شخص اٹھائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹ پر کی جانے والی کھیتی کے بعد بھی کسان کھلے بازار میں اپنی پیداوار بیچ سکتا ہے مگر کسانوں کا کہنا ہے کہ کنٹریکٹ فارمنگ یعنی معاہدے کی بنیاد پر کی جانے والی کھیتی میں کسان کمزور ہوں گے اور وہ بڑی کمپنیوں سے مول بھائو نہیں کرسکیں گے۔ ان کو اندیشہ ہے کہ یہ قانون خرید و فروخت کی منڈیوں کو ختم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ ایک بار فصلوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ منڈیوں کے باہر چل پڑا تو اے پی ایم سی بے مقصد ہوجائیں گی۔ پھر وہ وقت آئے گاکہ کسان سرمایہ داروں اور بڑی کمپنیوں کی کٹھ پتلی بن جائیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابتدا میں ممکن ہے کہ بڑی کمپنیاں زیادہ قیمت دیں مگر جب یہ سلسلہ چل پڑے گا تو وہ من مانی کرنے لگیں گی اس لئے ہمیں دور تک سوچنا پڑتا ہے۔
 تیسرا قانون جو ۲۰۲۰ء میں نافذ کیا گیا ہے وہ پہلے اور دوسرے قانون کو مزید مؤثر بنانے کے لئے ضروری اشیاء ترمیم قانون ہے۔ اس قانون کے تحت گیہوں، چاول، پیاز، آلو، دال، کھانے کے تیل وغیرہ کو ضروری اشیاء کی فہرست سے باہر کردیا گیا ہے۔ ضروری اشیاء کی فہرست سے ان کے باہر کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اور ہنگامی حالات کے علاوہ ان کی ذخیرہ اندوزی کی جاسکتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کی بھی کوئی حد نہیں مقرر کی گئی ہے۔
 اس ترمیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسان خاص طور سے چھوٹے کسان تو مجبور ہیں وہ بہر قیمت اپنی پیداوار بیچنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ ان کے پاس روپیہ ہے نہ پیداوار محفوظ رکھنے کے لئے جگہ۔ بڑی کمپنیاں پیداوار خرید کر گوداموں اور کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کرلیں گی۔ جب بازار میں دام بڑھے گا تو وہ اناج اور تیل وغیرہ کو باہر نکالیں گی۔ بڑی مقدار میں ذخیرہ اندوزی کا حق حاصل ہونے کا نقصان یہ ہوگا کہ جب فصل یا پیداوار کے منڈی میں آنے کا وقت ہوگا تو بڑی کمپنیاں منڈیوں میں اپنا ذخیرہ پہنچا کر بھائو کم دیں گی اور جب کم قیمت پر کسانوں کی پیداوار خرید لیں گی تو پھر ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ قیمت بڑھاتی رہیں گی۔
 حکومت اور حکومت نواز حلقے کی طرف سے مسلسل صفائی دی جارہی ہے کہ
٭ نئے قانون میں کم از کم خرید کی قیمت کو براقرار رکھا گیا ہے۔
٭ کسانوں کو عدالتی جھمیلوں سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب ان کے معاملات ایس ڈی ایم اور اے ڈی ایم کی سطح پر کئے جاسکتے ہیں۔ وہ مطمئن نہ ہوں تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جاسکتے ہیں۔
٭ کہ اگر کوئی بھی بددیانتی ہوتی ہے تو ایس ڈی ایم سے شکایت کی جاسکتی ہے۔ وہ ۳۰ ؍ دن کے اندر فیصلہ کرے گا۔
 بابری مسجد معاملے میں فیصلہ سنانے سے پہلے بھی سپریم کورٹ نے کمیٹی مقرر کی تھی، اس سے پہلے بھی مفاہمت کی کوششیں ہوئی تھیں مگر سوامی اگنویش کے بیان سے ظاہر ہوگیا کہ ایک فریق جس نے مسجد شہید کی تھی وہ مفاہمت کے نام پر اپنے منصوبے کی تائید چاہتا تھا۔ مفاہمت نہیں ہوئی تو اس کے منصوبے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی مہر لگ گئی۔ کسان بھی محسوس کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جن لوگوں کو کمیٹی ممبر نامزد کیا ہے ان کی حیثیت فریق کی ہے وہ مفاہمت کیا کراسکیں گے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK