Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ تعالیٰ کی نظرعمل کے ظاہر پر نہیں بلکہ دل میں چھپی ہوئی نیت پر ہوتی ہے

Updated: June 06, 2025, 4:53 PM IST | Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai

قربانی کا عمل سب سے زیادہ تاریخ کا حامل ہے جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوتی ہے۔ گویا اس دنیا میں اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے قرب، رضا، خوشنودی اور اپنے فضل و رحمت کے حصول کیلئے جو اولین اعمال بتائے ان میں پہلا عمل قربانی کا ہے۔

A sacrifice made with sincerity and sincerity is accepted by Allah before a drop of its blood falls on the ground. Photo: INN
جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این

’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔ اگر تو اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لئے میری طرف بڑھائے گا (تو پھر بھی) میں اپنا ہاتھ تجھے قتل کرنے کے لئے تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘ (المائده:۲۷۔ ۲۸)
عیدالاضحی کے ایام اعمال کے اعتبار سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بے پناہ شرف، فضل، مقبولیت اور عظمت کے حامل ہیں۔ عیدالاضحی کو ہم عام طور پر حج اور قربانی کی مناسبت سے یاد کرتے ہیں۔ یہ عید ماہ ذی الحج کو اس قدر سعادتیں اور برکتیں عطا کردیتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جب ماہ ذی الحج کا آغاز ہوتا ہے تو اس رات سے لے کر ۱۰؍ ذی الحج تک (یعنی اس ماہ کی پہلی دس راتیں ) ہر رات کی عبادت لیلۃ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ ‘‘
رمضان المبارک کے پورے مہینے کی عظمت لیلۃ القدر کی نسبت سے ہے، رمضان وہ مہینہ ہے کہ اسے ایک رات ایسی نصیب ہوئی ہے جس میں ایک ایسی ساعت ہے جو بندوں کی بخشش، مغفرت اور اللہ کے لطف و کرم کی ہے اور جو شخص صدق دل، اخلاص اور رقت کے ساتھ جو کچھ بھی اپنے رب سے مانگتا ہے اور وہ چیز بندے کے بھلے کے لئے ہو تو اللہ تعالیٰ بہر صورت اسے وہ چیز عطا فرماتا ہے۔ ماہ ذی الحج کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ اس مہینے کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات کی عبادت لیلہ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک اور لیلۃ القدر کی مبارک ساعتوں کے بعد خوشی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک دن عیدالفطر کا مقرر کیا ہے، اسی طرح ان بابرکت و پرنور ۱۰؍راتوں کے اختتام پر خوشی کی صورت میں ایک دن عیدالاضحی کا مقرر فرمایا ہے۔ عیدالاضحی کی ایک عظیم نسبت ایسی بھی ہے جو سال کے ۳۶۵؍ دنوں میں سے کسی دن کو نصیب نہیں اور وہ اس دن کا عید ِ قربان ہونا ہے۔ 
عمل ِ قربانی کی تاریخ
قربانی کا عمل وہ عمل ہے کہ جس کی تاریخ صفحہ ہستی پر اتنی طویل ہے کہ شاید کسی اور عمل کی تاریخ اس قدر طویل نہیں۔ کچھ اعمال ہمیں کسی نبی کی شریعت سے ملے اور کچھ اعمال کسی اور نبی کی شریعت سے ملے، روزہ کا کہیں سے آغاز ہوا، نماز کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا، حج کا کسی اور جگہ سے آغاز ہوا۔ ہر عمل کی تاریخ کی ایک ابتداء ہے لیکن قربانی کا عمل تاریخ کے اعتبار سے سب سے زیادہ تاریخ کا حامل ہے۔ اس کی تاریخ حضرت آدم ؑ سے شروع ہوتی ہے۔ گویا اس دنیا میں اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے قرب، رضا، خوشنودی اور اپنے فضل و رحمت کے حصول کے لئے جو اولین اعمال بتائے ان بنیادی تین / چار اعمال میں سے پہلا عمل قربانی کا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’(اے نبی مکرم) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ ‘‘
یعنی اعلان عام کردیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ قربانی دونوں نے کی تھی لیکن ایک کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوگئی اور ایک کی قربانی رد کردی گئی۔ ’’جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی۔ ‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کی قربانی کیوں قبول ہوئی؟ اور دوسرے کی قربانی کیوں قبول نہ ہوئی؟اس کا جواب ہمیں خود ان کے اپنے عمل سے میسر آجاتا ہے۔ قربانی کرتے وقت دو طرح کی نیت ہو سکتی تھی یا یہ کہ مجھے اس عمل سے اللہ کی رضا نصیب ہو جائے، یا یہ کہ مجھے دنیا میں شہرت، قدر و منزلت، احترام اور عہدہ و منصب مل جائے۔ جس بھائی کی قربانی قبول نہ ہوئی اس کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے کہ اس نے دوسرے سے کہا :
 ’’میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ ‘‘
قربانی قبول نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے بھائی کو قتل کرنے کے ارادے کا اظہار کرنا یہ از خود اس کے قربانی کے عمل کے پیچھے موجود نیت کی نشاندہی کر رہا ہے۔ قبول کرنا یا نہ کرنا یہ تو اللہ کا کام ہے۔ اگر کسی کا عمل قبول ہوگیا اور کسی کا عمل قبول نہ ہوا تو ایک کو دوسرے کے قتل کا حق نہیں پہنچتا۔ جس کا قبول کیا تو وہ بھی اللہ نے قبول کیا اور جس کا قبول نہ کیا وہ بھی اللہ نے نہ کیا۔ اس میں دوسرے کا تو کوئی قصور نہیں لیکن جب کوئی اس شخص کو قتل کرنے کے درپے ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قربانی کے عمل کے پیچھے اللہ کی رضا، خوشنودی، فضل و کرم اور محض اللہ کے قرب کے حصول کا خیال کارفرما نہ تھا بلکہ وہ قربانی کسی اور مقصد کے پیش نظر کر رہا تھا۔ اس کے پیچھے محرک کوئی اور نیت تھی جس نے اسے حسد میں مبتلا کر دیا اور اسے قتل کرنے پر آمادہ کر دیا۔ 
اس کے جواب میں جس بھائی کی قربانی قبول ہوئی اس نے کہا کہ ’’بے شک اﷲ پرہیز گاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔ ‘‘
جن کے دل تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہیں، جن کے دل میں نمود و نمائش کا خیال نہیں ہوتا، جن کے دل میں ناموری اور شہرت کا خیال نہیں ہوتا، جن کے دل میں ریاکاری اور اپنی برتری کا تصور نہیں ہوتا، جن کے دل میں کسی کے لئے حسد، بغض، عناد اور عداوت کا تصور نہیں ہوتا، جو جھکے ہیں تو صرف اُسی کے لئے اور اپنی جان و مال کا نذرانہ اپنے رب کی بارگاہ میں صرف اُسی کو راضی کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کی نظر عمل کے ظاہر پر نہیں بلکہ دل میں چھپی ہوئی نیت پر ہوتی ہے، قربانیوں کا قبول ہونا یا نہ ہونا یہ کسی اور چیز پر منحصر نہیں بلکہ اگر یہ منحصر ہے تو باطن میں چھپی ہوئی نیت پر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری ظاہری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ ‘‘ (صحيح مسلم)
ممکن ہے کہ دکھائی دینے میں کوئی شخص بہت خوبصورت ہو، بھلی صورت کا مالک ہو، اس کے اعمال ظاہری طور پر بہت اچھے ہوں لیکن ان اعمال کی اچھی صورت کے اندر ایک بری نیت کارفرما ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص دکھائی دینے میں بدصورت ہو، ناقص ہو، کمتر دکھائی دے لیکن اس کی نیت کے حسن اور اخلاص کا یہ عالم ہو کہ اس کے پیش نظر صرف اللہ کی رضا ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے عمل کو سب سے پہلے قبول کرتی ہے۔ جس بھائی کی قربانی قبول ہوئی وہ مزید کہتا ہے کہ’’اگر تو اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کیلئے میری طرف بڑھائے گا (تو پھر بھی) میں اپنا ہاتھ تجھے قتل کرنے کے لئے تیری طرف نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘
اس سے وہ فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ کیوں ایک بھائی کی قربانی قبول ہوئی تھی اور دوسرے کی قبول کیوں نہ ہوئی تھی؟
یعنی ایک شخص حسد کی بناء پر دوسرے پر زیادتی کررہا ہے اور دوسرا شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں بے قصور و بے گناہ ہوں اس کی زیادتی کا جواب بھی زیادتی سے نہیں دیتا اور درگزر سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو مجھے قتل کرنے پر آمادہ بھی ہوجائے تو پھر بھی میں تجھ پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا اس لئے کہ میں ہر حال میں اپنے اللہ سے ڈرنے والا ہوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ تیری زیادتی کے جواب میں اگر میں نے بھی ہاتھ اٹھایا تو کہیں میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔ 
پس اگر تقویٰ اور خوف الٰہی کی کیفیت دلوں میں ہو تو اعمال کو قبول کیا جاتا ہے۔ قربانی کا عمل دونوں نے کیا مگر ایک کا عمل کسی نہ کسی دنیاوی منفعت کے لئے تھا اور ایک کا عمل دل کے تقویٰ، خوف الہٰی، فضل و رضاء الہٰی کی تلاش کی بنیاد پر تھا۔ 
اس لئے رب کائنات نے فرمایا :
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں ) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ ‘‘ (الحج :۳۷)
یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ ‘‘ (سنن ابن ماجه)
پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔ 
صدق و اخلاص اور حسن نیت کا اجر
اس عمل کے پس منظر میں جو چیز کارفرما ہے وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ’’صدق‘‘ اور اخلاص ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اگر عمل صدق و اخلاص کی بنیاد پر ہو تو اگر وہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو، بندے کو بہت بلند کر دیتا ہے، اگر عمل، صدق و اخلاص، نیک نیتی سے خالی ہو تو اس طرح کے اعمال پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں وہ کبھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوسکتے۔ 
اس لئے انسانوں کے ذہنوں کو متوجہ کرنے کیلئے کہا کہ تم اگر کثرت سے زیادہ قیمتی جانور لے کر اپنے رشتے داروں، محلہ داروں پر اپنی امارت اور دولت کا رعب بٹھانے کے لئے قربانی کرتے ہو کہ لوگ کہیں کہ فلاں کتنا مالدار آدمی ہے کہ اس نے اس برس اتنی مالیت کے جانور قربان کئے، اس طرز عمل اور سوچ سے تم لوگوں کو اپنا بہت بڑا مالدار ہونا دکھا سکتے ہو لیکن خدا کے ہاں ایسا شخص بڑا نہیں ہوتا، خدا کے ہاں تو اس کا درجہ بڑا ہے جو کہ نہایت غریب ہو اور اس کے پاس قربانی دینے کی استطاعت نہ ہو لیکن دل اس کا چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں خدا کی راہ میں قربانیاں دیتا چلا جاتا۔ ممکن ہے کہ وہ قربانی نہ کر سکے مگر اس کو بھی اللہ کی بارگاہ سے وہ اجر مل جائے جو ریاکاری کی بناء پر قربانی کرنے والے کو کبھی میسر نہ آسکے۔ 
باری تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے مقدس و برگزیدہ احکام کی حقیقی معرفت عطا کرے اور بتمام و کمال ان کے ظاہرو باطن کے فیوض و برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK