سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں آج غزوۂ ذات السلاسل کے بارے میں پڑھئے کہ اس سریہ میں کس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ اپنے اصولوں پر قائم رہے، ساتھ ہی سریہ ٔ سیف البحر کی تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے
EPAPER
Updated: May 19, 2023, 11:10 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai
سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں آج غزوۂ ذات السلاسل کے بارے میں پڑھئے کہ اس سریہ میں کس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ اپنے اصولوں پر قائم رہے، ساتھ ہی سریہ ٔ سیف البحر کی تفصیل بھی ملاحظہ کیجئے
غزوۂ ذاتُ السَّلا سِل
یہ سریّہ ماہ جمادی الثانیہ سن آٹھ ہجری میں روانہ کیا گیا، جس جگہ یہ سریّہ بھیجا گیا تھا وہاں پانی کا ایک چشمہ تھا جس کا پانی سَلْسَال یعنی نہایت خوش گوار تھا۔ اسی مناسبت سے اس سریے کو ذات السلاسل کہا گیا۔ بعض علماء محققین نے کہا ہے کہ سَلاسِلْ سِلْسَلَۃٌ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں زنجیر اور بیڑی۔ کفار ومشرکین نے لڑنے کے لئے اپنے پیروں میں زنجیریں ڈال لی تھیں تاکہ وہ جنگ کے میدان سے راہ فرار اختیار نہ کرسکیں۔ تیسری تحقیق یہ ہے کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کی زمین ریتیلی تھی، سلاسل درحقیقت اس ریت کو کہتے ہیں جو تہہ بہ تہہ جمی ہوئی ہو۔ یہ علاقہ مدینے سے دس دن کی مسافت پرہے۔
(فتح الباری: ۸/۷۴، معجم البلدان: ۳/۲۳۳)
ذات السلاسل میں بنی قضاعہ کے دو قبیلے لَخْم اور جُذَام آباد تھے، لخم مالک بن عدی بن حارث کا لقب تھا ،اسی کی طرف یہ قبیلہ منسوب ہے، جذاب لخم کا بھائی تھا، اس کا پورا نام عمرو بن عدی ہے، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ سریّہ بنی عَذرہ اور بنو القَیْن کے ساتھ پیش آیا، یہ بھی بنی قُضاعہ کے دو قبیلے ہیں۔
جو واقعات اس موقع پر پیش آئے ان کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھنے والے بعض قبائل مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ یہ خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو طلب فرمایا اور ان کی سرکردگی میں ایک دستہ بنی قضاعہ کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا، حضرت عمرو بن العاصؓ خود یہ بات بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا کہ کپڑے اور ہتھیار لے کر میرے پاس آجاؤ۔ میں حاضر خدمت ہوا، آپؐ اس وقت وضو فرمارہے تھے، آپؐ نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا اور فرمایا کہ میں تمہیں ایک فوج کا قائد بنا کر روانہ کرنا چاہتا ہوں، اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا اور تمہیں مال غنیمت سے نوازے گا۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ میں نے مال حاصل کرنے کے لئے اسلام قبول نہیں کیا ہے، بلکہ مجھے یہ دین پسند آیا اس لئے میں مسلمان ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا اے عمرو! اچھا مال اچھے انسان کے لئے ہی تو ہے۔ (ابن حبان: ۸/۷،رقم الحدیث: ۳۲۱۱)
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو افراد پر مشتمل ایک دستہ تشکیل دیا، ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ یہ لوگ ذات السلاسل کی طرف روانہ ہوئے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت مرحمت فرمادی تھی کہ وہ راستے میں پڑنے والے ہم خیال قبائل سے بھی گفت و شنید کریں اور ہوسکے تو انہیں اپنے ساتھ لے لیں۔ دس دن کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد یہ دستہ شام کی سرحد پر واقع ذات السلاسل تک پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے۔ طے پایا کہ حضرت رافع بن مکیّث الجہنیؓ کو اس درخواست کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جائے کہ مزید آدمی بھیجے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سو افراد کا ایک دستہ تشکیل دیا اور اسے حضرت ابوعبیدہ ابن الجراحؓکی قیادت میں ذات السلاسل کی طرف بھیجا، اور انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ عمرو بن العاص سے جاکر ملو، اور اتفاق واتحاد کو پیش نظر رکھو۔ اس دوسرے دستے میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی تھے، اس طرح مسلمانوں کی تعداد پانچ سو ہوگئی جو دشمن کے مقابلے میں نہایت کم تھی۔ مسلمانوں نے بنی قضاعہ کی طرف اپنی پیش قدمی جاری رکھی، دشمنوں کو پتہ چلا تو وہ دم دبا کر بھاگ گئے، حملہ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ دو سو صحابہؓ کی قیادت کرتے ہوئے ذات السلاسل تک پہنچے اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور ان کے ساتھیوں سے ملے۔ نماز کا وقت آیا تو حضرت ابو عبیدہ ابن الجراحؓ نے ارادہ کیا کہ وہ امامت کریں، مگر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ آپ فوج کے امیر بناکر نہیں بھیجے گئے ہیں بلکہ آپ ہماری مدد کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں، آپ کو امامت کا حق نہیں ہے، میں امیر ہوں۔ مہاجرین نے کہا: نہیں! آپ اپنے دستے کے قائد اور امیر ہیں، ابوعبیدہ اپنے دستے کے امیر ہیں، مگر حضرت عمرو بن العاصؓ یہی کہتے رہے کہ تم لوگ ہماری مدد کرنے کے لئے آئے ہو، الگ سے تمہارا کوئی دستہ نہیں ہے، حضرت ابو عبیدہؓ نرم مزاج اور بلند اخلاق کے حامل انسان تھے، جب انہیں یہ احساس ہوا کہ عمرو بن العاصؓ اپنی رائے سے پیچھے نہ ہٹیں گے تب انہوں نے امامت کا اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور حضرت عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ اے عمرو! مطمئن رہو، میں امامت نہیں کروں گا، رسولؐ اللہ نے چلتے وقت مجھے جو نصیحت فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ جب تم اپنے ساتھی سے ملو تو اس کے ہم خیال رہنا، اس سے اختلاف نہ کرنا، میں تمہاری ہر حال میں اطاعت کروں گا، چنانچہ عمرو بن العاصؓ امامت کرتے رہے، اور ابو عبیدہؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے پیچھے نمازیں ادا کرتے رہے۔
حضرت عمرو بن العاصؓ زمانۂ جاہلیت ہی سے مضبوط رائے کے حامل انسان سمجھے جاتے تھے، یہاں بھی ان کا یہ وصف نمایاں رہا، چناں چہ انہوں نے صحابۂ کرامؓ کی مرضی کے علی الرغم متعدد فیصلے کئے اور ان فیصلوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم بھی رہے۔ ایک مرتبہ صحابہؓ نے آگ جلانی چاہی، کیوں کہ راتیں سرد تھیں، اور سردی سے بچنے کا واحد ذریعہ آگ تھا، مگر حضرت عمرو بن العاصؓ نے آگ جلانے سے سختی کے ساتھ منع کیا۔ حضرات صحابہؓ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے اکابر صحابہؓ سے درخواست کی وہ حضرت عمرو بن العاصؓ کو سمجھائیں مگر انہوں نے ان دونوں حضرات کی بات بھی نہیں مانی۔
یہ بھی ہوا کہ جب بنی قضاعہ کے لوگ مسلمانوں سے ڈر کر بھاگے تو اکثر صحابہؓ کی رائے ہوئی کہ ان کا پیچھا کیا جائے، اور کوشش کی جائے کہ وہ لوگ قتل ہوں یا گرفتار کئے جائیں، مگر حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا بلکہ حکم دیا کہ سب لوگ واپسی کا راستہ پکڑلیں۔ صحابہؓ جب مدینے واپس آئے تو یہ دونوں باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کردیں۔ آپؐ نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! دشمن کے تعاقب سے میں نے اس لئے روکا تھا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر ہم نے ان کا تعاقب کیا تو ہوسکتا ہے کہ کچھ دوسرے لوگ ان کی مدد کے لئے آجائیں، اس صورت میں ہمیں خود نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔ آگ جلانے سے میں نے اس لئے منع کیا تھا کہ آگ کی روشنی میں دشمن ہمیں دیکھتے اور ہماری تعداد کا اندازہ کرلیتے۔ آپؐ نے ان کے دونوں فیصلوں کو سراہا۔ (طبقات ابن سعد: ۲/۱۳۱، سنن ابی داؤد: ۱/۹۲، رقم الحدیث: ۳۳۴، البدایہ والنہایہ: ۴/۲۷۳)
سریہ ٔ سیف البحر
یہ سریّہ ساحل سمندر کی طرف روانہ کیا گیا تھا اس لئے اس کو سریۂ سیف البحر سے موسوم کیا گیا، سِیف کنارے کو کہتے ہیں، اس کو سریّہ خَبْط بھی کہا جاتا ہے، خبط درخت کی پتیوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سفر میں زاد راہ بالکل ختم ہوچکا تھا، صحابہؓ کو درختوں کی پتیوں پر گزارا کرنا پڑا تھا، اس لئے اس سریّہ کو سریۂ خبط بھی کہتے ہیں۔ بخاری ومسلم میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔ یہ سریّہ رجب سن آٹھ ہجری میں فتح مکہ سے کچھ ہی پہلے واقع ہوا۔ قبیلۂ جہینہ کی سرکوبی مقصود تھی، یہ مشرکین کا ایک بڑا قبیلہ تھا، بعض حضرات اسے سن سات ہجری کا واقعہ قرار دیتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے کسی قبیلے یا ان کے کسی حریف کی طرف کوئی سریّہ روانہ نہیں فرمایا، اس لئے یہ واقعہ صلح حدیبیہ سے کچھ پہلے کا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ قریش نے صلح حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔ بنو بکر نے بنو خزاعہ کے خلاف فوج کشی کی تھی۔ قریش نے معاہدۂ صلح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنوبکر کا ساتھ دیا تھا، اکثر محدثین اور اصحابِ سیرت کی رائے یہی ہے۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو صحابہ کو قریش کے قافلے پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بھیجا تھا۔ قریش کا ایک قافلہ سامان تجارت کے ساتھ واپس آرہا تھا، مدینے میں یہ اطلاع پہنچی تھی کہ قبیلۂ جہنیہ کے لوگ اس قافلے پر حملہ کرنا اور اسے لوٹنا چاہتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنی سیرت میں یہی موقف اختیار کیا ہے، لیکن شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ سمیت بہت سے شارحین حدیث کہتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ ابن الجراحؓ کے زیر قیادت تین سو صحابۂ کرامؓ کی یہ جماعت قریش کے تجارتی قافلے کے تعاقب میں روانہ کی گئی تھی۔ (فتح الباری: ۸/۶۳، سیرت النبی: ۱/۳۴۱، کشف الباری: ۸/۵۸۲)
حضرت جابر بن عبد اللہؓ جو اس دستے میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینے سے روانہ ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ زادِ راہ ختم ہوگیا، فوج کے قائد ابو عبیدہ ابن الجراحؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا توشہ لے کر آئیں، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، دو تھیلے کھجوروں کے بھر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک تھیلی کھجوروں کی دی تھی، ابو عبیدہؓ ان تھیلوں میں سے ہر روز تھوڑی تھوڑی کھجوریں کھانے کے لئے دیا کرتے تھے، جب وہ کھجوریں کم رہ گئیں تو ہمیں ہر دن ایک کھجور ملنے لگی، ایک صاحب نے حضرت جابرؓ سے دریافت کیا کہ بھلا ایک کھجور سے کیا کام چلتا ہوگا، حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک کھجور بھی بڑی غنیمت تھی، اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوا جب وہ ایک کھجور بھی ملنی بند ہوگئی۔
اس کے بعد اونٹ ذبح ہونے لگے، پہلے دن تین اونٹ ذبح ہوئے، دوسرے دن بھی تین اونٹ ذبح ہوئے، تیسرے دن بھی یہی سلسلہ رہا، تین دن کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ نے اونٹ ذبح کرنے سے منع کردیا، اس کے بعد صحابہؓ نے درختوں کے پتے کھانے شروع کردئے، سفر اسی مشقت کی حالت میں جاری رہا، یہاں تک کہ سمندر کے کنارے پہنچ گئے، ایک روز سمندر سے ایک بہت بڑی مچھلی کنارے پر آگئی، حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ یہ مچھلی مردہ ہے۔ اس کا کھانا جائز نہیں، بعد میں تمام صحابہؓ اس پر متفق ہوگئے کہ اضطرار کی حالت میں مردار کھانا جائز ہے، ہر دن اس مچھلی سے ایک بڑے بیل کے برابر ٹکڑا کاٹا جاتا تھا، اس کا گوشت پکا کر کھایا جاتا، اور اس کی چربی سے چراغ جلائے جاتے، اٹھارہ دن تک یہ مچھلی کھائی گئی، یہاں تک کہ اس کی پسلیاں باقی رہ گئیں، وہ مچھلی جس کو حدیث کی کتابوں میں عنبر کہا گیا ہے اتنی بڑی تھی کہ ایک چھوٹا موٹا پہاڑ معلوم ہوتی تھی، حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کی دونوں پسلیوں کو زمین پر کھڑا کیا، پھر قیس بن سعدؓ کو جو سب سے طویل قامت انسان تھے اونٹ پر سوار کیا اور ان سے فرمایا کہ وہ ان پسلیوں کے درمیان سے گزریں، چناں چہ وہ اونٹ پر بیٹھ کر اس طرح نکلے کہ ان کا سر ہڈیوں کے بالائی حصے سے نہیں ٹکڑایا، اس مچھلی کی آنکھوں کا حلقہ اتنا بڑا تھا کہ اس میں بہ یک تیرہ آدمی بیٹھ جاتے تھے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کوئی معمولی جسامت کی مچھلی نہیں تھی، اسے صحابہ کرامؓ کی کرامت بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے کھانے کا اس طرح نظم فرمایا کہ ان کی ضیافت کے لئے ایک عظیم جثے والی مچھلی ساحل پر لاکر ڈال دی۔
صحابۂ کرامؓ نے مدینے واپس پہنچ کر جب اس واقعے کا ذکر رسول اکرم ؐ سے کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے رزق بھیج دیا تھا، اگر اس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ، چنانچہ کسی نے کچھ گوشت آپ ؐکی خدمت میں پیش کیا، آپ نے تناول فرمایا۔ (صحیح البخاری: ۵/۱۶۶، رقم الحدیث: ۴۳۶۰) (جاری)