Inquilab Logo

اِس ماہ میں دینی تعلیم پر بھی غور کیجئے!

Updated: March 24, 2024, 5:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یہ ہمارے معاشرہ کی افسوسناک حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں نے تعلیم سے دنیوی تعلیم مراد لی ہے۔ علماء اور ائمہ اس جانب توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ دُنیوی یا عصری تعلیم، لفظ تعلیم کے وسیع تر مفہوم کا محض ایک پہلو ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے دینی اور دنیوی کی تخصیص ہی غلط ہے مگر اس نکتےپر کم ہی غوروخوض کیا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یہ ہمارے معاشرہ کی افسوسناک حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں نے تعلیم سے دنیوی تعلیم مراد لی ہے۔ علماء اور ائمہ اس جانب توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ دُنیوی یا عصری تعلیم، لفظ تعلیم کے وسیع تر مفہوم کا محض ایک پہلو ہے بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے دینی اور دنیوی کی تخصیص ہی غلط ہے مگر اس نکتےپر کم ہی غوروخوض کیا جاتا ہے۔ دینی تعلیم کے نام پر والدین اپنے بچوں کو کلام پاک پڑھنے کے قابل بنا دینا کافی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ بھی بہت اہم ہے مگر یہیں تک محدود رہ جانا ٹھیک نہیں۔ والدین کی توجہ کا مرکز و محور دُنیوی تعلیم ہوتی ہے سوائے اُن لوگوں کے جو اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے دینی درس گاہوں میں داخل کرواتے ہیں تاکہ اُن کے نونہال حافظ بنیں، عالم بنیں، فاضل بنیں، مفتی بنیں اور اُن کی ساری زندگی خدمت ِ دین میں صرف ہو۔ چونکہ نظام ِ تعلیم صرف اور صرف عصری تعلیم پر محیط ہے اور مسلم انتظامیہ کی ماتحتی میں چلنے والے ادارے بھی خود کو بڑی حد تک عصری تعلیم پر ہی مرکوز رکھتے ہیں اسلئے معاشرہ میں یہ نقص پیدا ہوا ہے کہ عصری تعلیم میں پڑھنے، آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور والدین نیز مادرِ علمی کا نام روشن کرنے والے طلبہ کی بڑی تعداد خاطرخواہ دینی تعلیم سے بے بہرہ رہ جاتی ہے۔ اُن میں نہ تو ترجمہ سے قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے نہ ہی اسلامی تاریخ سے واقفیت کا جذبہ و اشتیاق۔ اس نقص کو دور کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس کیلئے مسلمانوں کو ایسے جز وقتی یا تعطیلاتی کورسیز کی بابت سوچنا ہوگا جن کے ذریعہ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھنے یا وہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی شخصیت کا اوپر بیان کیا گیا خلاء دور کیا جاسکے۔اگر ایک طالب علم کلمۂ طیبہ پڑھتا ہے اور معنی نہیں جانتا، ایک طالب علم فلسفہ ٔ زکوٰۃ سے واقف نہیں ہیں، اگر ایک طالب علم حلال و حرام میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوسکا ہے یا ایک طالب علم نے سیرت نبویؐ کے مطالعہ کے بغیر عملی زندگی میں قدم رکھ دیا ہے اور اب اس قدر مصروف ہوچکا ہے کہ اُس کے پاس وقت ہی نہیں ہے تو ایسے طلبہ کی زندگیوں میں پائی جانے والی دینی تعلیم کی کمی کو کب، کیسے اور کیونکر پورا کیا جاسکے گا؟ 
 رمضان المبارک میں مسلمان غوروفکر کا موقع پاتے ہیں لہٰذا اُنہیں اس نکتے پر ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر اُن کے بچے دُنیوی تعلیم میں بہت آگے بڑھ گئے مگر دینی تعلیم سے بے بہرہ ہیں یا دینی تعلیم ہے بھی تو بہت محدود ہے، تو اِس میں اُن کا قصور تو ہے ہی والدین  بھی قصور وار ٹھہرائے جائینگے۔ بعض ادارے ایسے جزوقتی یا قلیل مدتی کورسیز جاری کرتے ہیں جن میں داخلہ لے کر طلبہ دینی تعلیم کے اب تک کے نقصان کی بھرپائی کرسکتے ہیں۔ اگر کسی شہر یا علاقے میں ایسے ادارے نہیں ہیں تو وہاں کے ذمہ داران کو کوشش کرنی چاہئے کہ طلبہ کو تعطیلات میں مصروف رکھنے کیلئے اور اس سے بھی بڑھ کر اُن کی دینی تعلیم کی کمی کو دور کرنے کیلئے مختصر مدتی کورسیز جاری کئے جائیں۔ یقین جانئے یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔
    خود عصری تعلیم کے ادارے اپنے طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اس نوع کے کورسیز سرما کی تعطیل میں یا گرما کی تعطیل میں جاری کرسکتے ہیں۔ ایسے کورسیز مفت ہوں تو کیا کہنے مگر اساتذہ کے محنتانہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر کچھ فیس چارج کی جاتی ہے تو اس میں بھی قباحت نہیں ہے۔ ان کورسیز کے ساتھ انعامات کا اعلان کرکے انہیں پُرکشش بنایا جائے تو طلبہ میں رغبت پیدا ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK