Inquilab Logo

سی اے اے پر سپریم کورٹ کی جلد سماعت ناگزیر

Updated: April 01, 2024, 1:14 PM IST | Ram Puniyani | Mumbai

بی جے پی، تقسیم اور تفریق پر مبنی سیاسی ایجنڈا کے تحت اس قانون کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لہٰذا اس قانون پر روک ضروری ہے اور یہ کسی سے ممکن ہے تو صرف سپریم کورٹ سے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ آسام میں قومی شہریت رجسٹر (این آرسی) کے بعد ’’شہرت ترمیمی قانون ۲۰۱۹ء‘‘  (سی اے اے) کو متعارف کروایا گیا تھا اور عوام سے شہریت کے ثبوت کے طور پر  کاغذات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مشق کے پیچھے مقصد تھا کہ بنگلہ دیش سے ہندوستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے تقریباً ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کی شناخت کرکے انہیں ملک بدر کردیاجائے۔ انہیں ملک کیلئے ’’دیمک‘‘ قرار دیا گیا اور ان کیلئے درجنوں مقامات پر حراستی مراکز تیار کیے گئے۔ لیکن این آرسی کے نتائج حیران کن تھے۔ ۱۹؍ لاکھ افراد جن کے پاس شہریت ثابت کرنے کیلئے مناسب کاغذات نہیں تھے، ان میں ۱۲؍  لاکھ ہندو تھے۔ اس طرح ڈیڑھ کروڑ بنگلہ دیشی مسلمانوں کا سفید جھوٹ بے نقاب ہوگیا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سی اے اے کا سہارا لیا جارہاہے۔ 
 ۲۰۱۹ء میں بل پاس کرنے کے بعد سے اب تک سی اے اے سرد خانے میں تھا لیکن انتخابات کے موقع پر اس سے متعلق ضوابط  جاری کردیے گئے جس کی وجہ سے اسے سرخیوں میں جگہ مل رہی ہے۔ پڑوسی ممالک کے ستم گزیدہ افراد کو پناہ دینے کے اصولوں پر روشی ڈالتے ہوئے معروف وکیل اور سماجی کارکن اندرا جے سنگھ کہتی ہیں: ’’دستورِ ہند کسی بھی مذہب سے قطع نظر پیدائش، آمد اور ہجرت کی بنیاد سے شہریت دیتا ہے، پارلیمنٹ نے ۱۹۵۵ء میں شہریت قانون نافذ کیا تھا جس میں شہریت دینے اور ختم کرنے کے باقاعدہ ضوابط درج کئے گئے تھے۔ یہ قانون بھی مذہب کو شہریت دینے کی بنیاد نہیں بناتا۔ لیکن ترمیم شدہ قانون سی اے اے کے ذریعہ شہریت صرف مذہب کی بنیاد پر نیچرلائزیشن (ایک ملک میں کسی دوسرے ملک کے شہری کو شہریت دینا) کے مختصر عرصہ کے بعد دی جائیگی یعنی کوئی غیر ملکی شہری ہندوستان میں کچھ عرصہ مقیم رہا ہو۔ اس طرح، یہ ترمیم شدہ قانون (سی اے اے۲۰۱۹ء)، دستور ہند کی دفعہ ۱۴؍  کے خلاف ہے جو مذہب سے قطع نظر قانون کے سامنے برابری اور مساوی تحفظ پر زور دیتی ہے۔ دفعہ ۱۴؍ کا اطلاق صرف شہریوں پر نہیں بلکہ ملک میں رہائش پذیر تمام افراد پر ہوتا ہے۔‘‘ 
 سی اے اے مسلمانوں کو کم عرصہ میں شہریت دینے سے انکار کرتا ہے۔ اس کے استفادہ کنندگان میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ دیگر ممالک کے افراد شامل نہیں ہیں۔ حکومت اس حقیقت سے واقف ہے لیکن  خاموش ہے کیونکہ مسلمان اس کے مذہبی معیار پر پورا نہیں اترتے۔ مرکزی حکومت کی دلیل ہے کہ سی اے اے پڑوسی ممالک میں ستائی جانے والی اقلیتوں کو کم وقت میں شہریت فراہم کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ لیکن درحقیقت، قانون میں ظلم و ستم کا ذکر نہیں ہے اور شہریت حاصل کرنے کیلئے ظلم و ستم کے ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ سی اے اے کے تحت، تینوں مذکورہ بالا ممالک کے تارکین وطن کو صرف اپنے مذہب،  داخل ہونے (ہندوستان میں) کی تاریخ اور اصل ملک اور ہندوستانی زبان سے واقفیت  ثابت کرنی ہے۔ اصل ملک کے ثبوت سے متعلق قوانین میں کافی نرمی لائی گئی ہے۔ ہندوستان سے ایک درست رہائشی اجازت نامہ اور پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی طرف سے جاری کردہ ایک درست پاسپورٹ کی پرانی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ ایسے معاملات میں ظلم و ستم کا ثبوت مانگا جاسکتا تھا یعنی شہریت طلب کرنے والا یہ بتائے کہ پڑوسی ملک میں اُس پر کیا ظلم ہوا، یعنی وہ واقعی مظلوم ہے یا نہیں لیکن یہ شرط نہیں رکھی گئی اور اسے  نظر انداز کیا گیا ہے اور شہریت دینے کا وقت کم کرکے پانچ سال کردیا گیاہے۔ 
 مسلمانوں کے ساتھ اس امتیازی رویہ پر یہ منطق سمجھی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس بہت سے ممالک ہیں جبکہ مذکورہ ممالک کے ہندوؤں کیلئے صرف ہندوستان  ہے۔ یہ ایک ناقص منطق ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے مظلوم خاندانوں کو پناہ دیتے وقت ہمیں انسانی اقدار کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ ستائے جانے والے گروہ سری لنکا کے تمل ہندو اور میانمار کے روہنگیا مسلمان ہیں۔ لہٰذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں سی اے اے کے تحت شہریت حاصل کرنے کے اہل پناہ گزینوں کی فہرست میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
 جب سی اے اے کو پہلی بار متعارف کرایا گیا تھا تب مختلف تنظیموں اور سماجی کارکنان نے اسے مختلف بنیادوں، خصوصاً دستور کی دفعات کی بنا پر چیلنج کیا۔ یہ تمام درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ امید ہے کہ اس نازک مسئلہ پر جلد ہی سماعت کی جائے گی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بی جے پی، تقسیم اور تفریق پر مبنی سیاست کے ایجنڈے کے تحت اس قانون کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ درحقیقت، ہمسایہ ممالک میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور پناہ گزینوں کے مسائل کیلئے مختلف حل اور مختلف قوانین درکار ہیں۔ 
 ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ مسلم سماج کو نشانہ بنانا  مقصود ہے جو پہلے ہی ’’نفرت‘‘ اور تشدد جیسے سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے مسلسل جذباتی اور تفرقہ انگیز مسائل کا سہارا لے رہی ہے۔ بظاہر یہاں سی اے اے کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جس طرح اس مسئلہ کو اچھالا جارہا ہے، وہ مسلمانوں کو ڈرانے کا ایک نیا آلہ بن گیا ہے جس کا مکمل کنٹرول حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس مذموم کوشش کے انتخابی اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ سی اے اے ایک جذبانی اور تفرقہ انگیز موضوع بن گیاہے۔ اس کے ذریعہ بی جے پی سماج کو تقسیم کرنا چاہتی ہے اور سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتی ہے۔
 چند ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ مثلاً مغربی بنگال کی ممتا بنرجی اور کیرالا کے پنارائی وجین کا یہ اعلان باعث اطمینان اور خوش آئند ہے کہ وہ سی اے اے کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں کریں گے مگر  ان  اعلانات سے عوام کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس انہیں بی جے پی،جو تفرقہ انگیز مسائل کو فروغ دیتی آئی ہے، کا سماجی اور سیاسی سطح پر مقابلہ کرنا ہوگا، اس کے بغیر کوئی بھی راحت (جیسے کہ سی اے اے کو التوا میں ڈال دیا گیا تھا) عارضی ہی ہوگی۔ اس کے علاوہ، اگر سپریم کورٹ اس معاملے پر جلد از جلد سماعت کرے اور اپنا فیصلہ سنائے تو اس سے ملنے والی راحت بڑی ہوگی، مستقل ہوگی اور اس سے تفرقہ کی سیاست پر روک لگے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK