حکومت نے اس سلسلے میں چند تدابیر اختیار تو کی ہیں مگر کیا وہ صحیح سمت میں ہیں؟ اس کیلئے ہمیں اُنہی تدابیر پر تکیہ نہ کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اور کون سے اقدام ہوسکتے ہیں۔ اس مضمون میںایسے ہی چند اقدام سے بحث کی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2020, 12:20 PM IST | Bharat Jhunjhunwala | Mumbai
حکومت نے اس سلسلے میں چند تدابیر اختیار تو کی ہیں مگر کیا وہ صحیح سمت میں ہیں؟ اس کیلئے ہمیں اُنہی تدابیر پر تکیہ نہ کرتے ہوئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اور کون سے اقدام ہوسکتے ہیں۔ اس مضمون میںایسے ہی چند اقدام سے بحث کی گئی ہے۔
حکومت نے بدعنوانی اور بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے کئی اچھے اقدامات کئے ہیں۔ ِان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ افسران جو بدعنوان ہیں اُنہیں سبکدوش کردیا جائے۔ مگر اس کے نتیجہ خیزہونے میں دقت یہ ہے کہ آئی اے ایس افسران بدعنوان افسروں کی نشاندہی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں کچھ الگ یا ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ کے پروفیسر جان جوزف وِلیز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سرکاری افسران کی بدعنوانی بہت کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے بانیان نے ’’نمائندگی، رسائی، مساوات اور شفافیت‘‘ کو خاص اہمیت دی تھی۔ امریکی دستور سازوں کا ہدف یہ تھا کہ حکومت کے جبر کے خلاف عوام کو طاقت بخشی جائے۔ ’’ورلڈ ڈیولپمنٹ‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اعلیٰ سرکاری افسران پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انسدادِ بدعنوانی کے تجربات کا جائزہ لیا گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ انسدادِ بدعنوانی کے ادارے (جیسے ہمارے ہاں کی پولیس اور سینٹرل وِجیلنس کمیشن) اتنے مؤثر نہیں ہیں جتنا حساب کتاب کا سختی سے جائزہ لینے (آڈٹ) کا عمل مؤثر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بدعنوانی اعلیٰ سرکاری افسران اور تاجروں یا صنعتکاروں کے باہمی اشتراک سے پنپتی ہے۔ انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کو علم ہوتا ہے کہ کہاں بدعنوانی ہورہی ہے۔
عام طور پر افسران اُس وقت فعال ہوجاتے ہیں جب فریقین میں اختلاف، تکرار یا نزاع پیدا ہوتا ہے یعنی رشوت دینے اور رشوت لینے والے جھگڑ پڑتے ہیں۔ اس کے برخلاف حساب کتاب کے آڈٹ پر مامور کیا جانے والا افسر زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی دفتر کے لین دین کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہے کہ اعلیٰ افسران کسی فائل کو اُس وقت تک ہاتھ نہیں لگاتے جب تک اُنہیں کچھ ملنے کی اُمید نہ ہو۔ ایک آڈیٹر یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کتنے وقت میں کتنی فائلوں کا جائزہ لیا گیا اور کتنے معاملات نمٹائے گئے۔اگر کسی سرکاری دفتر میں یا اس دفتر کے کسی شعبے میں معرض التواء کاموں کا فیصد زیادہ ہو تو وہ سوال کرسکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
احمد آباد کی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے پروفیسر ایول ڈیسوزا کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کو ختم کرنے میں ذرائع ابلاغ اور سماجی خدمتگار بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ اُن کی فعالیت ناگزیر ہے۔ مَیں اس میں عدلیہ کو بھی شمار کرنا چاہوں گا۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ، سماجی خدمتگار (سول سوسائٹی) اور عدلیہ بدعنوانی کے خلاف بڑا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کا ثبوت پیوپلس یونین فار سول لبرٹیز جیسی تنظیم ہے جو بدعنوانی کے معاملات کو اُجاگر کرتی ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پانچویں پے کمیشن نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کلاس اے افسران کی کارکردگی کا بیرونی ذرائع سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ ایسے تمام مشوروں میں جو چیز مشترک ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آزادانہ طور پر کام کرنے والوں کو بااختیار بنایا جائے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرکاری اُمور تک عوام کی رسائی کو فروغ دیا جائے،بدعنوانی کے معاملات میں حساب کتاب کی جانچ پڑتال نہایت سختی سے کی جائے، ذرائع ابلاغ کو زیادہ اختیارات دیئے جائیں، سماجی خدمتگاروں کو مواقع فراہم کئے جائیں اور عدلیہ کو نہایت غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کام کرنے دیا جائے۔
بالائی سطح پر کوئی قدم اُٹھانا مثلاً (بدعنوان افسران کی شناخت کرتے ہوئے اُنہیں زبردستی ریٹائر کرنا) سے اتنا فائدہ نہیں ہوسکتا جتنا کہ مذکورہ بالا تجاویز کو عمل میں لانے سے ہوسکتا ہے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، کوئی بھی چاہے تو دیکھ سکتا ہے کہ بالائی سطح پر اُٹھائے گئے اقدامات سے کتنا فائدہ ہوا؟ یہ تو بالکل غیر مؤثر ثابت ہورہے ہیں!
آزادانہ طور پر کام کرنے والوں کو بااختیار بنانےکے معاملے میں دشواری یہ ہے کہ جب ان لوگو ںکو اختیار دیا جاتا ہے تب یہ بدعنوان افسران ہی کے خلاف اُنگلی نہیں اُٹھاتے بلکہ پالیسیوں اور حکومت کے اقدامات پر بھی سوال اُٹھانے لگتے ہیں۔ اس کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ غلط چالان کی بنیاد پر کسی ٹرانسپورٹ افسر کے خلاف آواز اُٹھانے والا شخص ٹرانسپورٹ سے متعلق قانون (موٹر وہیکل ایکٹ) کے نقائص بھی بیان کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح عدلیہ بھی حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی دستور سازوں کے موقف اور مطمح نظر کے برخلاف وہاں کی حکومت عوام کی نمائندگی بڑھانے، حساب کتاب کی سختی سے جانچ کروانے، ذرائع ابلاغ کو طاقت دینے، سول سوسائٹی کو موقع دینے اور عدلیہ کے تئیں فراخدلی میں پس و پیش کرتی ہے۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ حکومت مذکورہ آزاد ذرائع کی آواز دبانے کیلئے کوشاں رہتی ہے چنانچہ یہ لوگ پوری طاقت سے کوئی معاملہ نہیں اُٹھا پاتے۔
بالائی اقدامات کے ذریعہ حکومت چاہے کہ خود ہی یعنی تن تنہا بدعنوانی کی روک تھام کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ بدعنوان افسران کو سبکدوش کرنے ہی سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوسکتا۔ یوپی کے ایک سینئر منسٹر نے راقم سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’آخر کیا کیا جائے، ہم نے متعدد پولیس افسران کو معطل کیا مگر یہ طبقہ کوئی سبق نہیں لیتا۔‘‘ ان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ آپ سول لبرٹیز جیسے اداروں کی مدد لیجئے۔ منظم اصلاحات اُس وقت کامیابی سے ہمکنار ہوں گی جب حکومت بالائی سطح سے حرکت میں آئے اور عوام زیریں سطح پر متحرک رہیں۔ فی الوقت حکومت کے پاس دو ہی متبادل ہیں۔ یا تو بدعنوانی کو گوارا کرلے یا اقتدار سے بے دخل ہوجائے۔ جبکہ تیسرا اہم متبادل یہ ہے کہ عوام یعنی غیر سرکاری افراد اور اداروں کو اس عمل میں ہر ممکن طریقے سے شامل کیا جائے اور انہیں انگشت نمائی کی مکمل اجازت دیجائے۔
(مضمون نگار آئی آئی ایم بنگلورو کے سابق پروفیسر برائے معاشیات ہیں)