Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسٹرابیری کےکاشتکار مانگ اور دام میں کمی سےمایوس

Updated: May 17, 2025, 11:07 AM IST | Agency | Srinagar

سیاحوں کے واپس چلنے جانے سے کشمیر کے بازار سنسان ہوگئے اور اس پھل کی مانگ اور دام میں یکایک۵۰؍ فیصد سے بھی زیادہ کمی آگئی۔

Kashmiri farmers can be seen packing strawberries. Photo: INN
کشمیری کاشتکاروں کو اسٹرا بیری پیک کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔ تصویر: آئی این این

وادی کشمیر میں سب سے پہلے تیار ہونے والا پھل اسٹرا بری بازاروں میں دستیاب ہے تاہم پہلگام واقعہ کے باعث اس کی مانگ اور دام  تسلی بخش نہ ہونے سے کسان مایوس نظر آ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وادی میں یہ فصل عین اس وقت تیار ہوئی جب پہلگام واقعہ سے پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں خاص طور پر سیاحوں کے واپس چلنے جانے سے یہاں کے بازار سنسان ہوگئے تو اس پھل کی مانگ اور  دام  میں یکایک۵۰؍ فیصد سے بھی زیادہ کمی ہوگئی۔
 سری نگر کے مضافاتی علاقہ حضرت بل کے گاسو نامی گائوں میں کاشتکار ان دنوں اس فصل کو پودوں سے اتارنے کے کام میں مصروف عمل ہیں لیکن امسال ان کے چہروں پر مایوسی کے بادل سایہ فگن ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ امسال بھی پیداوار اچھی تھی اور ریٹ بھی اچھی تھی لیکن پہلگام واقعہ کے بعد ریٹ یکایک کم ہوگئی۔
 منظور احمد نامی ایک کاشتکار نے بتایاکہ ’’ `میں ۸؍ برسوں سے یہ کاشتکاری کرتا ہوں اور اپنی روزی روٹی اچھی طرح سے کماتا ہوں اور اپنے عیال کو بخوبی پالتا ہوں۔‘‘انہوں نے کہاکہ ’’ `اسٹرا بری کشمیر میں سب سے پہلے تیار ہونے والا پھل ہے جس کو یہاں کے لوگ اور سیاح شوق سے کھاتے ہیں لیکن امسال جب یہ پھل تیار ہوا بد قسمتی سے اسی وقت پہلگام واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں اس پر گہرے اثرات مرتب ہو گئے۔‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ `اس کی اچھی مانگ بھی تھی دام  بھی تسلی بخش تھی لیکن جب سیاح واپس چلے گئے، اسکول، کالج بند ہوگئے جس سے بازاروں میں بھیڑ کم ہوگئی تو یکایک اس پھل کی مانگ اور قیمت  بھی متاثر ہوگئی۔
  متذکرہ کاشتکار نے کہاکہ ’’ `جس ڈبے کی بازار میں۸۰؍ سے۱۰۰؍ روپے قیمت تھی وہ گر اب مشکل سے۴۰؍ روپے میں بیچا جاتا ہے اور جو بڑا ڈبہ۶؍ سو روپوں کا تھا وہ آج مشکل سے ہی ڈھائی سو روپوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔‘‘انہوں نے کہاکہ ’’ `بازاروں میں شرح  کے اچانک اس قدر گر جانے سے کسان مایوس ہیں دوسری طرف اس پھل کی عمر انتہائی کم ہوتی ہے اس کو زیادہ دیر تک ذخیرہ  نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھاکہ ’’ سال گزشتہ حکومت نے ریفرجریٹر گاڑیوں کے ذریعے اس پھل کو جموں کے بازاروں تک پہنچایا تھا جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوا تھا لیکن امسال ابھی تک حکومت نے اس طرح کا کوئی اقدام نہیں کیا۔‘‘
 منظور احمد نے کہاکہ ’’ `ہماری پوری بستی ہی اس فصل کی کاشتکاری سے ہی وابستہ تھی لیکن اب لوگ دوسرے ذرائع معاش اپنا کر اپنے عیال کی پرورش کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زمین کم ہوتی جا رہی ہے۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان کاشتکاروں کی مدد کے لئے فوری مؤثر اقدام کرے تاکہ ان کو بحران سے بچایا جا سکے۔وادی میں اسٹرا بری کی کاشتکاری ٹنگمرگ کے علاوہ جنوبی کشمیر کے کچھ علاقوں میں بھی کی جاتی ہے۔اعجاز احمد نامی ایک کسان نے کہا کہ اگر ان کی طرف دونوں حکومت اور کاشتکار بھر پور توجہ دیں گے تویہ بھی سیب صنعت کی طرح ایک انتہائی منافع بخش صنعت ثابت ہوسکتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ اسٹرا بری موسم سرما کے اختتام کے بعد وادی کشمیر میں سب سے پہلے تیار پھل ہے لیکن پودوں سے اتارنے کے بعد یہ پھل صرف ۳؍ یا ۴؍ دن تک تازہ رہ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر اس پھل کی کاشت کے لئے موزوں ترین جگہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK