• Thu, 01 January, 2026
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قدیم نالندہ یونیورسٹی: احیا ،جدید کاری اورسرگرمیاں

Updated: December 31, 2025, 10:50 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai

قدیم نالندہ یونیورسٹی کا احیا محض ایک تعلیمی منصوبہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور فکری تحریک ہے۔ نالندہ آج بھی علم، مکالمہ اور انسان دوستی کا استعارہ ہے۔

Nalanda University
نالندہ یونیورسٹی

عالمی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہندوستان کا خطہ صوبہ بہار عہد قدیم سے ہی علم و فن کا گہوارہ رہا ہے اوریہاں کے علمی مراکز سے عالمی برادری استفادہ کرتی رہی ہے۔جہاں تک بہار کے نالندہ کی قدیم تعلیم گاہ کا سوال ہے تو یہ مرکز پانچویں صدی سے بارہویں صدی تک پوری دنیا کے لئے تعلیم وتعلّم کا مثالی مرکز رہا اور بعد کے دنوں میں بھی اس کی تاریخی اہمیت بھلے ہی دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی لیکن تاریخ کے اوراق پارینہ میں اس کی اہمیت ثبت رہی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے ہندوستان اور بالخصوص بہار کے خطہ بہار شریف وراجگیر آنے والے سیاحوں نے اس کی تاریخی قدامت اور مرکز علمی و دانشوری کا اعتراف کیا ہے۔ نتیش کمار کی حکومت نے اس تاریخی علمی مرکز کی احیا اورجدید کاری کر کے ایک بار پھر اس کی تاریخی اہمیت کو مستحکم کر دیا ہے ۔
 اکیسویں صدی کے آغاز میں حکومتِ ہند کی سرپرستی میں نالندہ یونیورسٹی کو ایک جدید بین الاقوامی تعلیمی ادارے کے طور پر دوبارہ قائم کرنے کا فیصلہ لیا گیااور اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے نہ صرف اس میں ذاتی دلچسپی لی بلکہ اس کی احیا کے جو خاکے مرتب کئے اسی کی روشنی میں بعد کے دنوں میںاس کی جدید کاری کی گئی اور اب یہ قدیم ادارہ ایک بار پھر عالمی برادری کے لئے مرکزِ نگاہ بن گیاہے۔ اس جدید کاری کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:
(۱)نئی نالندہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیار کے تعلیمی شعبے قائم کیے گئے ہیں، جن میں شامل ہیں،تاریخی مطالعات،بدھ مت اور فلسفہ،ماحولیات اور پائیدار ترقی،بین الاقوامی تعلقات،لسانیات اور ثقافتی مطالعات شامل ہیں۔جدید نالندہ یونیورسٹی کو ایشیا اور یورپ کی متعدد جامعات کی معاونت حاصل ہے۔ مختلف ممالک کے طلبہ اور اساتذہ یہاں تعلیم و تحقیق میں مصروف ہیں، جو قدیم نالندہ کی کثیرالثقافتی روایت کا تسلسل ہے۔اب ڈیجیٹل اور تکنیکی سہولیات، قدیم علم کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑتے ہوئے ڈیجیٹل لائبریریاں، آن لائن تحقیقی وسائل،عالمی ڈیٹا بیس تک رسائی جیسے اقدامات کیے گئے ہیں، جو نالندہ کو عصری علمی دنیا سے جوڑتے ہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید نالندہ یونیورسٹی ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کا بھی ایک فعال مرکز بنتی جا رہی ہے۔ سمینار، کانفرنس، مکالمے اور فکری نشستیں اس کی شناخت بن چکی ہیں۔حالیہ برسوں میں منعقد ہونے والا نالندہ لٹریری فیسٹیول جدید نالندہ یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔ یہ فیسٹیول قدیم روایت اور جدید ادبی فکر کے درمیان ایک مضبوط پل کی حیثیت رکھتا ہے۔حالیہ لٹریری فیسٹیول کا اہم پہلو ادبی مکالمہ رہا۔اس فیسٹیول میں اردو، ہندی، انگریزی اور دیگر ہندوستانی و عالمی زبانوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔ ادب، تاریخ، سیاست، فلسفہ اور تہذیب کے موضوعات پر سنجیدہ مباحث ہوئے۔ کثیر لسانی روایت نالندہ کی قدیم روایت رہی ہے۔لہٰذا اسی طرح کی سرگرمیاں حالیہ لٹریری فیسٹیول میں بھی لسانی تنوع کا خیال رکھا گیا اورمختلف زبانوں کی نمائندگی نے ہندوستانی تہذیب کی ہمہ گیری کو اجاگر کیا۔اس فیسٹیول میں نئی نسل کی شرکت نے اس فیسٹیول کو محض رسمی تقریب کے بجائے ایک زندہ فکری تجربہ بنا دیا۔ نوجوانوں نے سوالات، مکالموں اور تخلیقی نشستوں میں فعال کردار ادا کیا۔
 نالندہ لٹریری فیسٹیول اس بات کا ثبوت ہے کہ نالندہ یونیورسٹی محض ماضی کی یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ ادارہ ہے جو آج کے مسائل پر غور و فکر کرتا ہے۔یہاں ادب کو تاریخ، سیاست، ماحولیات اور عالمی تناظر کے ساتھ جوڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو جدید علمی رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔اردو زبان و ادب کی نمائندگی اس فیسٹیول میں خصوصی توجہ کا مرکز رہی۔ اردو کے ذریعے مشترکہ تہذیبی ورثے، گنگا جمنی ثقافت اور فکری ہم آہنگی پر گفتگو ہوئی، جو نالندہ کی قدیم روح سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔اس کی جدید کاری اور ادبی و ثقافتی سرگرمیاں اس بات کی نوید ہیں کہ یہ ادارہ مستقبل میںعالمی فکری مکالمے کا مرکز بن سکتا ہے۔ایشیائی دانش کو نئی شناخت دے سکتا ہے،تعلیم، ادب اور ثقافت کے امتزاج کی مثال قائم کر سکتا ہے۔
 مختصر یہ کہ قدیم نالندہ یونیورسٹی کا احیا محض ایک تعلیمی منصوبہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور فکری تحریک ہے۔ نالندہ آج بھی علم، مکالمہ اور انسان دوستی کا استعارہ ہے،کل بھی تھا، آج بھی ہے اور امید ہے کہ اگر اسی طرح کے علمی مکالمے ، مقابلہ جاتی روش اور بین المذاہب وبین اللسان مذاکروں کو فروغ ملتا رہے گا تو مستقبل میں ایک بار پھر قدیم نالندہ کی روایت زندہ ہوگی۔ جیسا کہ حالیہ بین الاقوامی مذاکرے کے افتتاحیہ اجلاس میں بہار کے گورنر جناب عارف محمد خاں نے اپنے تاثرات میں کہا کہ آج عالمی برادری کے لئے قدیم نالندہ کی ہر ایک اینٹ علم ودانش کا مرکز بن گیاہے اور انگریزی زبان کے دانشور ادیب ششی تھرور نے بھی نالندہ کی احیا اور جدید کاری کو ہندوستان کے ماضی کی بازیافت قرار دیا۔ واضح ہو کہ قدیم نالندہ کی طرح ہی حالیہ برسوں میں غیر ملکی طلبا یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے ہیں اور ایک بار پھر سائنس اور ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مذہبیات بالخصوص بودھ مذہب کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے جو بہار کی تاریخ میں ایک بڑے انقلابی قدم کے طورپر لکھا جائے گا ۔
  نالندہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں آزادانہ فکر ، سوال وجواب اور بین المذاہب مکالمے کو فروغ حاصل تھا۔اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا جدید نالندہ یونیورسٹی میں اس طرح کی ذہنیت کو فروغ دیا جائے گا کیوں کہ اس وقت ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں جس طرح کی تعلیمی فضا قائم کی جا رہی ہے وہ تو سوال وجواب کرنے اور آزادانہ فکر کے اظہار کو باغیانہ صفت قرار دیا جا رہاہے اور ایک خاص نظریے کی تبلیغ کرنے پر اساتذہ اور طلبہ کو مجبور کیا جا رہاہے ۔ اگر اس عالمی تعلیمی ادارے میں بھی اسی طرح کی روش عام ہوئی تو پھر اس کی احیا کاری کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا کیوں کہ بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا خواب پورا کرنے والے بہار کے موجودہ نتیش کمار اور مرکزی حکومت نے دل کھول کر اس کی جدید کاری میں نہ صرف مالی سہولیات فراہم کی ہیں بلکہ یہاں بین الاقوامی سطح کی علمی وادبی سرگرمیاں بھی ہوں اس کی بھی کوشش کی گئی ہے مگر اب دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ دیگر قومی یونیورسٹیوں کی طرح یہاں بھی ایک خاص نظریے کو فروغ دینے کی زیریں لہریں پروان چڑھ رہی ہیں جو اس عالمی ادارے کی تعلیمی فضاکیلئے نہ صرف مضر ہوگی بلکہ اس کی تاریخی شناخت کو بھی مجروح کرے گی ۔یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر تمام تر ذہنی تحفظات وتعصبات سے بالا تر ہوکر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ قدیم نالندہ کی روح کو زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہے۔n

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK