تعلیم کا مقصد حصول روزگار نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر مقصد کا جزو ہے جسے کل ( کُل) سمجھنا غلطی ہوگی۔ آج کا تعلیمی معاشرہ بنیادی مقصد سے دور ہے۔ اگر ہم جزو کو کل سمجھنے والے طالب علموں اور اُن کے والدین کا ذہن پڑھنے کی کوشش کریں تو محسوس ہوگا کہ وہ جزو کے ساتھ بھی انصاف نہیں کررہے ہیں ۔
تعلیم کا مقصد حصول روزگار نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر مقصد کا جزو ہے جسے کل ( کُل) سمجھنا غلطی ہوگی۔ آج کا تعلیمی معاشرہ بنیادی مقصد سے دور ہے۔ اگر ہم جزو کو کل سمجھنے والے طالب علموں اور اُن کے والدین کا ذہن پڑھنے کی کوشش کریں تو محسوس ہوگا کہ وہ جزو کے ساتھ بھی انصاف نہیں کررہے ہیں ۔ اسکولوں اور کالجوں کے کتنے طلبہ ہیں جو اعلیٰ روزگار حاصل کرپاتے ہیں اور کتنے ہیں جو سلسلۂ تعلیم کو درمیان ہی میں منقطع کرکے کہیں کھو جاتے ہیں ؟ بھیڑ کا حصہ بن جاتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ ہمارے طلبہ کی بڑی تعداد چھوٹے موٹے کاروبار یا چھوٹے موٹے روزگار پر اکتفا کرلیتی ہے۔ وہ نہ تو اعلیٰ روزگار سے وابستہ ہوپاتے ہیں نہ ہی قابلِ قدر کاروبار کو اپنے تعارف کا امتیازی حوالہ بناتے ہیں ۔ جب یہ کہہ کر چڑایا جاتا ہے کہ یہ پنکچر بنانے والے ہیں تو ہمیں بُرا لگتا ہے جو فطری ہے مگر حقیقت پسندانہ رُخ اختیار کرتے ہوئے ’’پنکچر بنانے‘‘ کے بیان کو کسوٹی مان کر اُس پر خود کو پرکھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بیان غلط نہیں (بیان کے پس پشت جو تحقیر ہے وہ غلط ہے)۔ اگر ہم پنکچر کو پنکچر تک محدود نہ رکھتے ہوئے اسے ایسا ہی کوئی اور نام دے دیں مثلاً موبائل کے کل پرزے درست کرنا یا اُن کی مرمت کرنا، خوانچہ لگانا خواہ کسی بڑے مارکیٹ میں کرایہ کی چھوٹی سی جگہ پر ہو یا کوئی ادنیٰ ملازمت جیسے ڈیٹا آپریٹنگ، مارکیٹنگ، ڈلیوری بوائے، سیلس مین وغیرہ، اور اس کا سبب جاننے کی کوشش کریں تو یہ راز کھلے گا کہ یہ تعلیم کو منظم نہ کرنے کا، اعلیٰ و ارفع ہدف مقرر نہ کرنے کا، فیوچر پلان نہ بنانے کا، مستقل مزاجی کے فقدان کا اور بڑے عزائم سے خدا واسطے کے بیر کا نتیجہ ہے۔ تعلیم عام ہوگئی (اگر ہوگئی ہو تو) اس پر ہمارا اطمینان بے جا نہیں ۔ کئی لڑکے لڑکیوں نے اچھا کریئر بنالیا اس پر ہمارا اظہار ِ مسرت بھی غلط نہیں مگر کیا اس سے ملت کی تصویر بدل گئی؟ اعلیٰ مناصب پر (کم از کم اٹھارہ فیصد اسامیوں پر) ہمارے نوجوان فائز ہوگئے؟
افسوس کہ یہ نہیں ہوا۔ اسی لئے ہم نے بار بار کہا ہے کہ تعلیم کو نتیجہ خیز بنائیے۔ یہ تب ہوگا جب ایک ایک طالب علم کے ذہن پر نقش ہوجائیگا کہ اُسے کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے۔ یہ تب ہوگا جب لڑکیوں کی طرح لڑکے بھی نہایت سنجیدگی سے اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری کو پورا کرینگے۔ یہ تب ہوگا جب قوم کا مزاج بدلے گا، اس میں اعلیٰ مناصب کے تئیں کمٹمنٹ پیدا ہوگا۔ یہ تب ہوگا جب سوچ بدلے گی اور اپنے بے اثر ہوجانے کے شدید احساس سے بااثر ہونے کا عزم پیدا ہوگا۔ یہ تب ہوگا جب چند ایک کی نمایاں کامیابی کے جشن میں ہم اتنا محو نہیں ہوجائینگے کہ آس پاس کے اُن طالب علموں کی فکر نہ رہے جو ڈراپ آؤٹ ہورہے ہیں یا جنہیں جانا کہیں اور تھا مگر کہیں اور چلے گئے کیونکہ وہی اُنہیں مناسب شارٹ کٹ محسوس ہوا۔
پچھلے تینتیس سال کی جدوجہد کو اس طرح نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں آگئے۔ اسے اس طرح دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کہاں پہنچنا چاہئے تھا اور ابھی کہاں پہنچ سکے ہیں یعنی یہ نہیں کہ کتنی مسافت طے ہوگئی بلکہ یہ کہ کتنی مسافت باقی ہے۔ یہ پہاڑ انفرادی کامیابیوں سے نہیں ہوگا۔ اس کیلئے اجتماعی تعلیمی نتیجہ کو سامنے رکھنا ہوگا اور کوئی نظم بنانا ہوگا تاکہ اجتماعی نتیجہ دکھائی دے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ کامیابی کیلئے طویل مدتی ہدف ہو جس کو پانے کیلئے جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کو رخت سفر بنایا جائے۔