Inquilab Logo

اروند کیجریوال کی گرفتاری کا داؤ بی جے پی کیلئے کہیں اُلٹا نہ پڑجائے

Updated: April 02, 2024, 3:25 PM IST | Abhay Kumar Dubey | Mumbai

ہندوستانی سیاست میں دو چیزیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ آج سے پہلے نہ تو کسی وزیر اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی کبھی کسی وزیر اعلیٰ نے جیل سے حکومت چلائی۔

Arvind Kejriwal. Photo: INN
اروند کیجریوال۔ تصویر :آئی این این

ہندوستانی سیاست میں دو چیزیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ آج سے پہلے نہ تو کسی وزیر اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی کبھی کسی وزیر اعلیٰ نے جیل سے حکومت چلائی۔ اب ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ دہلی کے تین بار کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ای ڈی نے گرفتار کرلیا ہے... اور اس کے بعد انہوں نے جیل ہی سے حکومت چلاتے ہوئے پانی کی وزارت سے متعلق اپنا پہلا حکم جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی بحث کے دو پہلو اہم ہیں۔ 
 پہلا، اگرچہ کیجریوال کو قانونی طور پر نظربندی کے ذریعے حکومت چلانے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن کیا یہ عملی طور پر ایسا ممکن ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا گرفتاری سے کیجریوال کو رائے دہندگان کی ہمدردی ملنے کی وجہ سے بی جے پی کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھئے: مطلق العنانیت یا جمہوریت: دنیا کے پاس انتخاب کا یہ آخری موقع

موضوع بحث ان سوالات کے جواب تلاش کرنا ضروری ہیں۔ بالخصوص اسلئے کہ ان کا تعلق کیجریوال کی تیار کردہ حکمت عملی سے ہے، جس کی کامیابی پر عام آدمی پارٹی کے مستقبل کاانحصار ہے۔ پہلی نظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کو ’پی ایم ایل اے‘ کے تحت جیل بھیجے جانے کا علم پہلے ہی سے تھا۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ تھاکہ اس قانون کے آرٹیکل۴۵؍ کی وجہ سے ان کی ضمانت کے امکانات کم بلکہ نہیں کے برابر ہیں۔ ایسے میں ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے انہوں نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ جیسے ہی انہیں پہلا سمن موصول ہوا، انہوں نے کہا کہ یہ غیر قانونی ہے، اسلئے اس کی تعمیل نہیں کی جاسکتی۔ اس کے بعد سمن پر سمن آتے رہے اور وہ انہیں غیر قانونی قرار دیتے رہے۔ ای ڈی کیلئے یہ ایک نئی صورتحال تھی۔ اس سے پہلے کسی نے بھی اس کے سمن کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا تھا۔ ابتدائی تذبذب کے بعد ای ڈی کو اپنے سمن کی قانونی حیثیت کو یقینی بنانے کیلئے از خود عدالت سے رجوع ہونا پڑا، لیکن توقعات کے خلاف، ای ڈی کو فوری طور پر راؤز ایونیو کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ نہیں مل سکا۔ یہ مسئلہ ابھی زیر غور ہے۔ 
 اس کے بعد کیجریوال اپنی گرفتاری پر حکم امتناع حاصل کرنے کیلئے ہائی کورٹ گئے لیکن عدالت سے انہیں کوئی راحت نہیں مل سکی البتہ عدالت نے ای ڈی کی بات کو بھی قبول نہیں کیا۔ عدلیہ نے ای ڈی سے سوال کیا کہ اگر کیجریوال کے خلاف اتنے ثبوت ہیں، جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں توآپ نے انہیں ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا؟ عدالت نے کہا کہ آپ اس تعلق سے مجھے فائل دکھائیں اور بتائیں کہ ان کے خلاف کیا ثبوت ہیں ؟اس کے بعد ہائی کورٹ نے۲۲؍ اپریل کی تاریخ مقرر کی۔ اس کی وجہ سے ای ڈی مشکل میں پڑ گئی کیونکہ عدالت فائل کو دیکھ کر کسی ایسے نتیجے پر بھی پہنچ سکتی تھی جو ای ڈی کیلئے شاید سازگار نہ ہوتا۔ اسلئے کیجریوال کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 
 معاملہ کچھ بھی ہو، ۲۲؍ اپریل کو ہونے والی سماعت ابھی باقی ہے۔ کیجریوال کو جیل سے سرکار چلانے سے قانونی طور پر نہیں روکا جا سکتا لیکن یہ فیصلہ بی جےپی کو کرنا ہے کہ وہ انہیں جیل سے سرکار چلانے دے گی یا نہیں۔ گیند فی الحال بی جے پی کے پالے میں ہےاور اس کے سامنے تین راستے ہیں۔ 
 پہلا یہ کہ وہ کیجریوال کو جیل سے حکومت چلانے دے، لیکن اس صورت میں اسے گرفتاری سے کوئی فوری سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے امکانات کم سے کم رہ سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ، وہ اسمبلی کو معطل کر دے یا پھر تیسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اسمبلی کو تحلیل کردے۔ آخرالذکر دونوں متبادلات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے لیفٹیننٹ گورنر کو رپورٹ بھیجنی ہوگی کہ ریاست میں نظم و نسق اور آئینی عمل درہم برہم ہوگیا ہے۔ 
 دونوں ہی صورتوں میں آئندہ ۱۱؍ ماہ تک دہلی پر نوکر شاہی کا راج قائم رہے گا۔ یہ ایک ایسی حکومت ہوگی جو عوام کے سامنے جوابدہ نہ ہونے کے باوجود عوام کی نظروں میں بی جے پی کی ہوگی۔ مطلب یہ کہ اس کے منفی پہلوؤں کا الزام صرف اور صرف بی جے پی پرعائد ہو گا۔ ۲۰۱۵ء کے انتخابات سے پہلے بھی صورتحال ایسی ہی تھی۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کے خلاف بہت ساری ’اینٹی ان کم بنسی‘ جمع ہوگئی تھی۔ خیال رہے کہ دہلی میں بی جے پی کے صرف ۷؍ ایم ایل ایز ہیں، جن کی بنیاد پر وہ کوئی ڈھنگ کی حکومت نہیں بنا سکتی۔ کیجریوال نے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کررکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی آئندہ ۶؍ ماہ تک اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی نہیں لا سکتی۔ بعد ازاں انہوں نے ریفرنڈم کر کے گرفتاری کے بعد بھی وزیر اعلیٰ بنے رہنے کے حق میں بھی نتیجہ حاصل کر لیا ہے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا کہ بی جے پی کیلئے ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK