Inquilab Logo

تعلیم میں سب سے آگے

Updated: July 26, 2020, 8:50 AM IST | Editorial

کیرالا کو ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مردم شماری ۲۰۱۱ء کے مطابق ملک کی سب سے زیادہ خواندہ دس ریاستوں (ٹاپ ٹین) میں ایک کیرالا ہی ہے جو بڑی آبادی والی ریاست ہے ورنہ دیگر تمام (۹) چھوٹی چھوٹی ریاستیں یا مرکزی انتظام والے علاقے (یونین ٹیریٹریز) ہیں جن میں لکشادیپ، میزورم، گوا، تری پورہ، دیو اور دمن، انڈمان نکوبار، دہلی، چندی گڑھ اور پانڈیچری شامل ہیں

education - Pic : INN
تعلیم ۔ تصویر : آئی این این

کیرالا کو ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مردم شماری ۲۰۱۱ء کے مطابق ملک کی سب سے زیادہ خواندہ دس ریاستوں (ٹاپ ٹین) میں ایک کیرالا ہی ہے جو بڑی آبادی والی ریاست ہے ورنہ دیگر تمام (۹) چھوٹی چھوٹی ریاستیں یا مرکزی انتظام والے علاقے (یونین ٹیریٹریز) ہیں جن میں لکشادیپ، میزورم، گوا، تری پورہ، دیو اور دمن، انڈمان نکوبار، دہلی، چندی گڑھ اور پانڈیچری شامل ہیں۔ ٹاپ ٹین کے بعد والی فہرست میں ہماچل پردیش (خواندگی ۸۲؍ فیصد)، مہاراشٹر (خواندگی ۸۲؍ فیصد)، سکم (۸۱؍ فیصد)، تمل ناڈو (۸۰؍ فیصد)، ناگالینڈ (۷۹؍ فیصد) اور منی پور (۷۹؍ فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ریاستیں ملک کی مجموعی خواندگی (۷۴؍ فیصد) سے کافی آگے ہیں۔
 اگر کیرالا مردم شماری سے تیار ہونے والی فہرست میں اول مقام پر ہے تو نیتی آیوگ کی تیار کردہ اپنی نوعیت کی اولین فہرست (کوالیٹی انڈیکس) میں بھی اسے  اول مقام حاصل ہے۔ نیتی آیوگ کے تیار کردہ انڈیکس میں زیادہ آبادی والی ۲۰؍ ریاستوں کو شامل کیا گیا تھا اور صرف خواندگی کا جائزہ نہیں لیا تھا جبکہ اسکولوں کے انفراسٹرکچر اور معیارِ تعلیم کو بھی آنکنے کی کوشش کی تھی۔ 
 اُمورِ تعلیم میں کیرالا کی اس پیش رفت پر تبصرہ کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ اس ریاست کی آبادی (۳؍ کروڑ ۵۷؍ لاکھ) کم ہے اور چھوٹی ریاستوں کا انتظامو انصرام بہ نسبت بڑی ریاستوں کے آسان ہوتا ہے اس لئے اگر کیرالا کو سبقت حاصل ہے تو اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ بات درست ہے مگر کم و بیش اتنی ہی آبادی کی دیگر ریاستیں بھی ہیں مثلاً تلنگانہ (آبادی ۳؍ کروڑ ۹۳؍ لاکھ)، جھارکھنڈ (۳؍ کروڑ ۸۵؍ لاکھ)، آسام (۳؍ کروڑ ۵۶؍ لاکھ) اور پنجاب (۳؍ کروڑ)۔ یہ ریاستیں کیرالا کی ہم پلہ نہیں ہیں۔ بلاشبہ کم یا زیادہ آبادی ہی تعلیم پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اور بھی کئی محرکات ہوتے ہیں ، اس لئے ایک ریاست کا دوسری ریاست سے موازنہ کرنے کے بجائے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ دیگر ریاستوں کو کیرالا ماڈل سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو کہ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ 
 انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سائٹفک ریسرچ (آئی او ایس آر) نے اپنے جرنل برائے اکتوبر ۲۰۱۶ء میں ایک رپورٹ بعنوان ’’کیرالا کا فعال نظام تعلیم دیگر ریاستوں کیلئے سبق‘‘ (مرتب شوانی جسوال) شائع کی تھی جس میں مختلف کسوٹیوں پر کیرالا کو پرکھنے اور اس کا مقابلہ دیگر ریاستوں سے کرنے کے بعد اپنے اختتامی پیراگراف میں لکھا تھا کہ ’’کیرالا حیرت انگیز کامیابی کی داستان ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں اور بہت سے کم آمدنی والے کئی ملکوں کے مقابلے میں کیرالا کے لوگ اُمورِ تعلیم و صحت میں کم و بیش اسی معیار پر ہیں جس پر مغربی دُنیا کے لوگ ہیں۔ اہل کیرالا کی تعلیم تک رسائی ہی قابل ذکر نہیں ہے بلکہ اُمور حکومت میں بھی اُن کی جتنی سنی جاتی ہے اتنی ملک کی کسی اور ریاست میں نہیں سنی جاتی۔‘‘ رپورٹ میں کیرالا کی تعلیمی پیش قدمی کی اصل وجہ بھی بیان کی گئی۔ رپورٹ کے الفاظ میں: ’’کیرالا کی قابل ستائش ترقیاتی کامیابیوں کی بنیاد تعلیمی سہولتوں کی فراوانی ہے۔ طبقاتی تعصبات اور صنفی امتیازات سے مقابلے کیلئے سماجی اصلاح کے پروگراموں اور سیاسی تحریکات میں تعلیم کو سب سے بڑا ہتھیار تسلیم کیا گیا۔ کیرالا نے بہت پہلے جان لیا تھا کہ تعلیم کو عام کرنے کیلئے اسکولوں کو عام کرنا ضروری ہے۔ اسی بیداری کا نتیجہ ہے کہ آج یہاں شرح خواندگی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔‘‘ 
 یہ رپورٹ کیرالا کی تعلیمی ترقی کی ایک اور سند ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دیگر ریاستیں کیرالا ماڈل کیلئے تیار ہیں؟ شاید نہیں کیونکہ اب ہر ریاست میں پہلے سے زیادہ سیاست ہونے لگی ہے جو عوامی مفاد کے ہر کام میں روڑے اٹکاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست ملک کو سو فیصد خواندہ اور تعلیم یافتہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی

kerala Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK