اسرائیل طویل عرصے سے شرپسندملک کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ بات کیرالا کے وزیر اعلیٰ وجین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی، ایران پر اسرائیلی حملوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔
EPAPER
Updated: June 13, 2025, 10:02 PM IST | Thiruvandpuram
اسرائیل طویل عرصے سے شرپسندملک کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ بات کیرالا کے وزیر اعلیٰ وجین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی، ایران پر اسرائیلی حملوں پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔
کیرالا کے وزیراعلی وجین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،’’اسرائیل طویل عرصے سے شرپسندملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے اور سب کو اس کا علم ہے۔ انہیں (اسرائیل کو) لگتا ہے کہ امریکہ کی حمایت سے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا،’’جو کچھ ہم نے ابھی سنا ہے وہ واقعی انتہائی گھناؤنا ہے، کیونکہ ایران پر حملہ ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے اور ہر کسی کو اس من مانی کارروائی کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘ واضح رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیلامبور اسمبلی ضمنی انتخاب کیلئے زوردار مہم چل رہی ہے، جو ۱۹؍جون کو ہونا ہے۔ نیلامبور میں تقریباً۴۳؍ فیصد مسلمان آباد ہیں اور یہ ہندو اکثریتی آبادی کے قریب ہے۔ اسرائیل مخالف یہ بیان ان لوگوں کو ضرور متاثر کرے گا جو اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات کے دوران، وزیراعلی وجین کی قیادت میں بائیں بازو کی قیادت نے حماس پر حملے کے حوالے سے اسرائیل کی سخت مخالفت کی تھی۔وزیراعلی وجین کا جمعہ کے روز کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ہزاروں کیرالا کی نرسیں اسرائیل میں کام کر رہی ہیں۔ اگرچہ وزیراعلی وجین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل یہ سب امریکی حمایت کی وجہ سے کر رہا ہے، لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران پر اسرائیلی حملے سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ واشنگٹن اس میں ملوث نہیں تھا۔ سلیوان نے کہا،’’ہم ایران پر حملوں میں ملوث نہیں ہیں، اور ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی افواج کی حفاظت ہے۔ اسرائیل نے ہمیں مشورہ دیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کارروائی ان کی خود دفاع کے لیے ضروری تھی۔‘‘
اس سے قبل اسرائیل نے جمعہ کی صبح سویرے ایران پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے، جس سے خطے میں کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا اور طویل عرصے سے حریف رہنے والے ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر تصادم کے خدشات بڑھ گئے۔ یہ حملے تہران کے جوہری پروگرام اور اسرائیلی قومی سلامتی کیلئے اس کے ممکنہ خطرے پر بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان ہوئے ہیں۔