Inquilab Logo

کھلاڑی، تمغے اور بے بسی

Updated: May 31, 2023, 10:42 AM IST | Mumbai

گزشتہ ۳۵۔۳۷؍ دنوں سے جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی خاتون پہلوانوں نے عالمی مقابلوں میں کمائے ہوئے اپنے میڈل احتجاجاً گنگا میں بہادینے کے فیصلے کو مؤخر کرکے بالکل ٹھیک کیا ہے جس کا سہرا، اُنہیں ایسا کرنے پر آمادہ کرنے والے کسان لیڈر نریش ٹکیت کے سربندھتا ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

گزشتہ ۳۵۔۳۷؍ دنوں سے جنتر منتر پر احتجاج کرنے والی خاتون پہلوانوں نے عالمی مقابلوں میں کمائے ہوئے اپنے میڈل احتجاجاً گنگا میں بہادینے کے  فیصلے کو مؤخر کرکے بالکل ٹھیک کیا ہے جس کا سہرا، اُنہیں ایسا کرنے پر آمادہ کرنے والے کسان لیڈر نریش ٹکیت کے سربندھتا ہے۔ احتجاج کے طریقے اور بھی ہیں، سخت محنت اور جدوجہد کے بعد حاصل کئے گئے اُن تمغوں کو دریا بُرد کردینا درست نہیں تھا جن سے ملک و قوم کا نام روشن ہوا اَور ایک سو چالیس کروڑ لوگوں کا سر فخر سے بلند ہوا۔  ہری دوار پہنچنے کے بعد خاتون پہلوانوں کی حالت شدید ذہنی اذیت اور بے بسی کی عکاس تھی۔ اُن کی یہ کیفیت اس سے پہلے بھی ظاہر ہوئی تھی بالخصوص اتوار، ۲۸؍ مئی کو جب اُنہوں نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت تک جانے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال کی تصویریں عوامی ذہنوں سے محو نہیں ہوسکتیں۔ اگر اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہمارا  ایسا سلوک رہا تو اس سے ملک کی نصف آبادی کو کیا پیغام ملے گا اس پر  اہل اقتدار کو غور کرنا چاہئے۔ 
 ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس دن انہوں نے اپنی شکایات عام کی تھیں، اُسی دن اُن کی فریاد سن  لی جاتی، فوری کارروائی کے ذریعہ اُن کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا اور اُن میں اعتماد پیدا کیا جاتا۔ انہیں احتجاجی مظاہرہ کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہئے تھی۔ اگر انصاف کا حصول میڈل جیتنے سے زیادہ مشکل ہوجائے تو ہمیں فوراً اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ بحیثیت ملک ہم کہاں ہیں اور ہمارا رُخ کس طرف ہے۔ اس سے ہمارے سسٹم پر سوال اُٹھتا ہے۔ عالمی مقابلوں میں حصہ لینے والی ان کھلاڑیوں کی شہرت عالمی سطح پر ہے چنانچہ ان کے احتجاج کی خبریں پوری دُنیا میں مشتہر ہورہی ہیں۔ کیا اَب بھی ہم اس خام خیالی میں ہیں کہ ہماری شبیہ بے داغ ہے اور اگر ہلکا سا داغ لگا بھی تو مودی جی کی انٹرنیشنل وزٹ اسے دھو دے گی؟ 
 سوچئے  اتوار، ۲۸؍ مئی کو ان بچیوں کے زخموں پر کیسی نمک پاشی ہوئی ہوگی  جب اِدھر اُنہیں سڑکوں پر گھسیٹا اور حراست میں لیا جارہا تھا اور اُدھر اُن کا ’’مجرم‘‘  پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کی تقریب میں موجود تھااور تصویریں کھنچوا رہا تھا۔ کیا تصویریں کھنچوانے اور عام کرنے کے پس پشت اِن کھلاڑیوں تک یہ پیغام پہنچانا مقصود نہیں رہا ہوگا کہ دیکھ لو مَیں کتنا طاقتور، نیک نام، ممتاز اور بااثر  ہوں؟ دیکھو تمہیں گھسیٹا جارہا ہے اور مَیں نہایت اہم لوگوں کی صف میں کھڑا ہوں!
  اُس دِن، کھلاڑیوں کے گھسیٹے جانے اور ایک تاریخی تقریب میں ملزم کے شریک ہونے کا تضاد شکوہ کناں تھا کہ اے روح ِ جمہوریت بتا تو‘ کس کے ساتھ ہے، تو‘ سڑکوں پر گھسیٹے جانے والوں کے حقوق کی محافظ ہے یا اُس ملزم کی حفاظت پر مامور ہوگئی ہے جس نے ایک نابالغ سمیت سات لڑکیوں کی زندگیوں کو تہ و بالا کررکھا ہے، تو‘ تو کمزور سے کمزور شہری کیلئے مضبوط دفاعی دیوار بن کر کھڑی رہنے والی دیوی ہے،  پھر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اِن کھلاڑیوں کو انصاف کی اُمید تک نہیں دِلائی جارہی ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے جیسے اُن سے کوئی انتقام لیا  جارہا ہے؟
 کھلاڑیوں نے اپنے تمغے دریا بُرد کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ غیر معمولی تھا۔ یہ محض تمغے نہیں، خون پیسنے سے کمائی ہوئی وہ دولت ہے جس کی مالیت کا تعین ممکن نہیں۔ ایسی دولت کو گنگا میں بہانے کے حوصلے میں شدید بے بسی کی داستانِ الم  چھپی ہوئی ہے۔ کاش اہل اقتدار جاگ جائیں!   اَب بھی نہیں تو کب جاگیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK