Inquilab Logo

کیا پہلوانوں کا احتجاج دوبارہ شروع ہوگا؟

Updated: June 13, 2023, 10:16 AM IST | Mumbai

خاتون پہلوانوں کی میٹنگ وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ بھی ہوئی اور بعد ازاں کھیل کود کے وزیر انوراگ ٹھاکور کے ساتھ بھی۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

خاتون پہلوانوں کی میٹنگ وزیر داخلہ امیت شاہ کے ساتھ بھی ہوئی اور بعد ازاں کھیل کود کے وزیر انوراگ ٹھاکور کے ساتھ بھی۔ ان میٹنگوں سے اگر کچھ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ خاتون پہلوانوں نے اپنے احتجاج کو مؤخر کردیا ہے۔ چونکہ اور کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اس لئے زیادہ اِمکان اس بات کا ہے کہ ۱۵؍ جون کے بعد اُنہیں احتجاج دوبارہ شروع کرنا پڑے۔ 
 کیا ایسا ہوگا؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ حکومت کا رویہ اب بھی اُتنا ہی افسوسناک ہے جتنا کہ مذکورہ دو میٹنگوں سے پہلے تھا۔ اگر خاتون پہلوانوں نے احتجاج کو مؤخر کیا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی اُن کی مجبوری ہی تھی یا ممکن ہے مرکز کے دو اہم وزراء نے اُن کی کچھ یقین دہانی کرائی ہو اور احتجاج مؤخر کرنے کی اپیل کی ہو۔ ہم نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے مگر ہم ہی نہیں زمانہ جانتا ہے کہ ان بچیوں کے ساتھ جو کچھ پہلے ہوا اور اس کی وجہ سے انہیں احتجاج پر مجبور ہونا پڑا وہ تو تشویش کا باعث تھا ہی، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی اذیت ناک تھا۔ ۲۸؍ مئی کا دن، جب پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا، بعض تحفظات کے باوجود ملک کے عوام اور جمہوریت کیلئے ایک اہم دن تھا مگر یہی دن ان بچیوں کیلئے صبر آزما ثابت ہوا۔ اس دِن اُنہیں پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب بڑھنے سے روکنے کیلئے جو طریقہ اختیا رکیا گیا اُس کی تصاویر اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی دیکھی گئیں۔کیا یہ تصویریں ہمارے ملک اور اس کی جمہوریت کے شایان شان تھیں؟ کیا ۲۸؍ مئی کے دن کو یہ بچیاں،  جو تمغے جیت کر ملک کا نام روشن کرتی ہیں، پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے سبب وقارِ جمہوریت میں ہونے والے اضافے کیلئے یاد رکھ سکیں گی؟
  ارباب اقتدار  اپنا محاسبہ کریں تو ممکن ہے وہ بھی محسوس کریں کہ یہ معاملہ غیر ضروری طور پر طویل ہوگیا۔ جنوری میں جب پہلی مرتبہ ان کی جانب سے شکایتیں ملی تھیں، تب ہی ضروری اور قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہوتی اور کسی کو بچانے کے بجائے کسی کو انصاف دلانے پر توجہ ہوتی تو صورت حال دوسری ہوتی۔ ہمیں عالمی سطح پر نیچا نہ دیکھنا پڑتا۔بتایا جاتا ہے کہ یہ احتجاج اولمپک کھلاڑیوں کے طویل ترین احتجاجوں میں سے ایک ہے۔ بی جے پی میں ایسے کئی لیڈران ہیں جنہیں بحران سے نمٹنے (کرائسس مینجمنٹ) کے وسیع تجربہ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ آخر کیوں ان لیڈروں کو ذمہ داری دے کر بحران سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی گئی؟ اس پس منظر میں اگر ہم یہ سمجھیں تو کیا غلط ہوگا کہ حکومت کو یہ گمان رہا ہوگا کہ پہلوان ’’اتنا آگے‘‘ نہیں بڑھیں گے؟ یہیں حکومت سے غلطی ہوئی اور یہ طرز عمل کی غلطی سے زیادہ حد سے متجاوز خود اعتمادی کا نتیجہ ہے۔ کسان آندولن کے بارے میں بھی حکومت کا خیال تھا کہ آج نہیں تو کل، دھرنے پر بیٹھے کسان تھک ہار کر واپس چلے جائینگے کہ اُنہیں کھیت اور فصل کی بھی فکر کرنی ہے۔ مگر دُنیا نے دیکھا کہ کسان موسموں کی سختی کے باوجود کھلے آسمان کے نیچے تسلسل کے ساتھ ایک سال تک دھرنا دیتے رہے۔ اُنہوں نے ہار نہیں مانی جس کا نتیجہ تھا کہ حکومت کو تین زرعی قوانین واپس لینے پڑے۔پہلوانوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی کچھ ہوگا مگر اب تک اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ 
 ؍ ۱۵ جون کے بعد احتجاج دو بارہ شروع ہو یا نہ ہو، کارروائی ضروری ہے اور چونکہ کافی وقت پہلے ہی ضائع ہوچکا ہے اس لئے فی الفور کارروائی ہونی چاہئے ورنہ خواتین کو بااختیار بنانے اور طاقت دینے کے دعوے کھوکھلے قرار پائینگے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK