Inquilab Logo

جنتر منتر پر مسلمانوں کیخلاف زہرافشانی پولیس نے کچھ دیر میں روک دی مگر کیس درج نہیں کیا

Updated: August 22, 2023, 10:30 AM IST | Fazeel Ahmed | new Delhi

ایف آئی آر درج نہ کرنے پر تنقیدیں،سپریم کورٹ کے احکامات کی بنیاد پر توہین عدالت قرارد یا گیا، پولیس کی اجازت سے منعقدہ پروگرام میں  یتی نرسمہا نند جیسوں کو موقع کیوں دیاگیا؟

After stopping the Maha Panchayat in Delhi, the police taking Yeti Narasimhanand and other organizers with them.
دہلی میں مہا پنچایت روکنے کے بعد  پولیس یتی نرسمہانند اور دیگرمقررین کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے۔

 نفرت انگیزی کے خلاف سپریم کورٹ کے سخت موقف کے باوجود ملک میں یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں  لے رہاہے۔ نوح فساد کے خلاف احتجاج  کے نا م پر دہلی کے جنتر منتر پر اتوار کو پولیس کی اجازت سے  اس شرط پر مہا پنچایت  کا انعقاد کیاگیا کہ اس میں کسی کے خلاف اشتعال انگیز نہیں ہوگی مگر یتی نرسمہا نند اور دیگر مقررین نے جم کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔کچھ ہی دیر میں دہلی پولیس نے مقررین سے مائک چھین کر  شرائط کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے مہا پنچایت تو رُکوا دی مگر کسی کے خلاف کیس درج نہیں کیا۔ کیس درج کرنے سے دہلی پولیس کے اجتناب کو سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کی خلاف  ورزی اور توہین عدالت کے مترادف قراردیا جارہاہے۔  اس سلسلے میں دہلی پولیس کا موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ 
  اس سے پہلے کے پولیس  مہاپنچایت رُکواتی آل انڈیا سناتن فیڈریشن  کی جانب سے  جنتر منتر پر منعقدہ اس  مہا پنچایت میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  انہیں پاکستان جانے کی  صلاح دی گئی  ۔غازی آباد کے ڈاسنا مندر کے مہنت یتی نرسمہا نند  نے اسلاموفوبیا پھیلاتے ہوئے کہا کہ ملک کے جو حالات  ہیں ان کو دیکھتے ہوئے  ۲۰۲۹ء میں ہندوستان کا وزیراعظم  مسلمان ہوگا،اس لئے ہندوؤں کو ابھی سے اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی زہر افشانی کیلئے میں جیل میں رہ چکے یتی نرسمہا نند نے کہا کہ ’’ آج ہندوئوں کے مذہبی سفر پر پتھر برسائے جاتے ہیں ،ہندو کچھ کہیں تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہے،  گردن کٹوائی جاتی ہے ، اگر ملک کے ایسے ہی حالات رہے تو  ۲۰۲۹ء میں ملک کا وزیر اعظم مسلمان ہو گا۔‘‘ ہندوؤں کو اکساتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ اب احتجاج کا وقت آگیا ہے۔‘‘ہندو سینا کے صد ر وشنو گپت نے مسلمانوں کو  پاکستان جانے کی نصیحت کی  اور کہا کہ جب تک ہندوستان میں ایک بھی مسلم رہے گا ،تب  تک تقسیم  ہند کو درست نہیں مانا جائے گا۔
  کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد زہر افشانی کا یہ سلسلہ جاری ہی رہاتو  پولیس نے مداخلت کی اور مائک چھین کر  مہاپنچایت کو بیچ  میں ہی روک دیا۔ مہاپنچایت میں ۱۰۰؍ سے زائد ہندو تنظیمیں شامل ہوئیں جس  کے  پیش نظر پولیس  کا خاطر خواہ بندوبست تھا۔  

 اسٹیج پر پہنچ کر پولیس نے مہاپنچایت کو یہ کہتے ہوئے منسو خ کردیا کہ’’ منتظمین سے کہا گیا تھا کہ آپ کو اس اسٹیج سے دوسری برادری یا مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہنا  لیکن  یہاں سے بھی متنازع بیانات دیئےجارہے ہیں۔‘‘ایڈیشنل ڈی سی پی ہیمنت تیواری نے  بتایا کہ ہم نے اسٹیج سے اعلان کیا تھا کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو مشتعل نہیں کیا جانا چاہیے ،لیکن  اس پر عمل نہیں کیاگیاجس کی وجہ سے مہاپنچایت کو درمیان میں ہی بند کرنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے جی ۲۰؍سربراہی کانفرنس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں کسی قسم کی بدنظمی پھیلے اور غلط پیغام جائے۔ بہرحال ایف آئی آر درج نہ کرنے پر پولیس پر تنقید ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ  نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی کسی برادری کے خلاف اشتعال انگیزی کرتا ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی جائے۔ اس سلسلہ میں حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے ایک گائڈلائن بھی جاری کی ہے۔  اس کے مطابق جو   پولیس افسر عدلیہ کے اس حکم پر عمل نہیں کرے گا وہ عدالت کی توہین کا مرتکب ہوگا۔ دہلی ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ رئیس احمد صدیقی  نے اس حوالہ سے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس نے درمیان میں ہی مہاپنچایت کو روکا یہ اچھی بات ہے لیکن اس کو مہاپنچایت کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کرنی چاہئے تھی ۔‘‘انہوں نے کہاکہ پولیس نے ایسا نہ کرکے عدلیہ کی توہین کی ہے کیونکہ  سپریم کورٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ جو بھی کسی برادری کے خلاف اشتعال انگیزی کرے اس پرایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی جائے اور جو پولیس افسر ایسا نہیں کرتا  وہ عدالت کی توہین کرے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK