Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیت الحکمۃ: ماضی کا وہ منبع جو فراموش کر دیا گیا

Updated: September 06, 2024, 3:15 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

دنیاکی تاریخ میں اور اسلام کے شاندار ماضی میں لائبریری کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد ہم جب مسلم معاشرے کی طرف دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں کتابیں اور لائبریری سب سے اخیر میں آتی ہیں بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہماری فہرست میں شامل ہیں ہی نہیں۔

We should remember that our rich and lively history in the past and our scholarly achievements are largely due to scholars and their private and public libraries. Photo: INN
ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ماضی میں ہماری شاندار اور جاندار تاریخ اور ہمارے علمی کارنامے اکثر علماء وفضلاءاور ان کی ذاتی اور عوامی لائبریریوں کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ تصویر : آئی این این

خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دور، عباسی حکومت کے ۵۰۸؍ برسوں میں بہترین دور مانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ وہ علمی ترقی ہے جو اس دور میں مسلمانوں نے کی کہ لفظ اقرأ کے ساتھ عروج کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھنے والی مسلمان قوم نے ہارون اور مامون کا عہد آنے تک اس دور میں پائے جانے والے انسانیت کے لئے نفع بخش ہر علم میں اپنی دسترس قائم کرلی تھی۔ سارا عالم ِاسلام علم کی روشنی سے جگمگا رہا تھا، اور صرف عالم اسلام نہیں بلکہ یورپ میں بھی اس علم کی کرنیں جا بجا پھیلتی جارہی تھیں۔ 
 اگر ہم ہارون اور مامون کے دور کی اس عظیم علمی ترقی کی بات کریں اور اس بات کی تحقیق کرنا چاہیں کہ علمی ترقی کی سیڑھیوں پر اس لمبی چھلانگ کی وجہ کیا تھی؟ تو ہمیں خلیفہ المنصور کے دور میں جانا ہوگا۔ دراصل خلیفہ المنصور کو علم سے بڑا شغف تھا۔ اس کے لئے انہوں نے اپنے محل میں ایک لائبریری قائم کی تھی جہاں انہوں نے نہایت ہی دقیق علمی موضوعات والی کتابیں جمع کی تھیں۔ پھر المنصور کے بعد المہدی اور الہادی نامی خلفاء نے علم سے اور اس لائبریری سے اس قدررغبت نہ دکھائی۔ ان کے بعد دور آیا ہارون الرشید کا جو نہ صرف یہ کہ علم سے شغف رکھتے تھے بلکہ خود بھی ایک جید عالم تھے اور ماہرین کے ساتھ بہ نفس نفیس علمی مباحثو ں میں حصہ لینے سے انہیں بہت دلچسپی تھی۔ اس لئے ہارون نے نہ صرف یہ کہ المنصور کی قائم کردہ لائبریری، جس کو ’’بیت الحکمۃ‘‘ کہا جاتاتھا، میں بیش بہا کتابوں کا اضافہ کیابلکہ اس کو بغداد میں ایک مخصوص عمارت میں منتقل بھی کردیا نیز ساری دنیا سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین علماء کو وہاں جمع کیا۔ اسی بیت الحکمۃ کی وجہ سے بہت جلد بغداد اور عالم اسلام کی فضاء میں علم کی خوشبو چار سو پھیلنے لگی۔ بیت الحکمۃ کی کتابوں میں اضافے کے لئے دارالترجمہ کا بھی وجود عمل میں آیا جہاں عیسائی اور مسلم مترجمین نے سریانی، عبرانی، یونانی اور دیگر متعدد زبانوں سے علوم کو عربی میں منتقل کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:ماہِ ربیع الاول کی آمد اور تقاضا: نور نبوت سے دنیا کے ہر طبقے کو فیضیاب کریں!

ماضی کے اس عظیم دور کا تذکرہ کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا احساس کریں کہ جس طاقتور عباسی حکومت کی بات ہورہی ہے ہم اس کی علمی ترقی سے واقف ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس علمی ترقی کی وجہ ’’بیت الحکمۃ‘‘ نامی لائبریری کی اہمیت سے بھی واقف ہوں جس نے اس دور کی علمی ترقی میں ایک نہایت ہی اہم کردار نبھایا تھا۔ ماضی سے یہ ایک مثال صرف سمجھنے کیلئے ہے ورنہ دنیا میں کتابوں کو جمع کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ مصر میں ایک مقام پرایسے بیشمار مٹی کے ٹھیکرے ملے ہیں جن پر کچھ تحریر ہے۔ جو ۲۶۰۰ ق م میں مصریوں نے بنائی تھی۔ اسی طرح یونان میں ۵۰۰ ق م میں لوگوں کی ذاتی لائبریریوں کا رجحان عام ہونے لگا تھا۔ اس کے علاوہ بھی لائبریریوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس کا تذکرہ یہاں غیر ضروری طوالت کا باعث ہوگا۔ 
 دنیاکی تاریخ میں اور اسلام کے شاندار ماضی میں لائبریری کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد جب ہم موجودہ مسلم معاشرے کی طرف دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں کتابیں اور لائبریری سب سے اخیر میں آتی ہیں بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ہمارے پاس کسی قسم کی فہرست میں شامل ہیں ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے پوری کی پوری قوم کے گویا ایک بڑے طبقے کو کتابوں سے الرجی سی ہوگئی ہے۔ آج ہماری آبادیوں سے لائبریری کا وجود تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ خود ہم جب کسی جگہ نیا گھر خریدنے جاتے ہیں یا کرایہ سے لیتے ہیں تو سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ، گوشت، دودھ، کرانہ، سبزی کی دکان وغیرہ کی مسافت دیکھتے ہیں لیکن ایسا آج تک کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی گھر لینے والے نے ’’آس پاس کوئی لائبریری بھی ہے کیا؟‘‘ دریافت کیا ہو۔ اس لئے کہ ہمارے معاشرہ سے ہی نہیں بلکہ ہمارے ذہنوں اور دلوں سے بھی اب لائبریریوں کا وجود تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ جو لائبریریاں یا تو عہد قدیم کی باقیات میں سےاب بھی موجود ہیں اور کچھ نئی جو اہل خیر لیڈران نے قائم کی ہیں، ان کا مقصد اب تھوڑی بہت اخبار بینی اور باقی سب گپ شپ رہ گیا ہے۔ یعنی لائبریری کا وجود اور اس کا صحیح معنی میں استعمال اب ہمارے معاشرے سے، ہمارے ذہن سے ناپید ہوچکا ہے۔ تو پھر کیا تعجب ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ملک میں تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ پچھڑی حالت مسلمانوں کی ہے۔ 
 ترقی کی اساس کہلانے والی لائبریریوں کے مستقبل کا سوچ کر دو وجوہات کی بنیاد پر اور بھی زیادہ خوف ہونے لگا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ موبائیل اور کمپیوٹر کے اس دور میں ویسے بھی کتابوں کی اہمیت دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ کسی شاعر نے تو یہ تک کہا ہے ’’یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی‘‘۔ پڑھنے کے لئے انسان اب زیادہ سے زیادہ آن لائن پڑھائی پر انحصار کیا جارہا ہےکہ ایک پین ڈرائیو میں ہی ایک پوری لائبریری کی کتابیں اب پی ڈی ایف کی شکل میں سماسکتی ہیں۔ ایسے ماحول میں کون اب نئی لائبریری قائم کرنے کا جوکھم اٹھائے گا؟ دوسری وجہ جگہ کی قلت ہے۔ زمین کی قلت نے ہمارے معاشرے میں ہر کسی کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ دن بہ دن بڑھتے خاندان اور سکڑتے گھروں کے درمیان ہر انسان کسی طرح جو جگہ مل جائے اس میں زندگی گزار رہا ہے۔ ایسے دور میں بھلا اب کو ن لائبریری کیلئے درکار وہ بڑی سی جگہ اور اس کی تعمیر کی لاگت کی طرف دھیان دے گا؟ 
 لائبریریوں کے بیشمار فوائد کے باوجود ان سے بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری کی پوری مسلم آبادیوں میں کہیں پڑھنے کیلئے دور دور تک کوئی لائبریری نہیں ملے گی۔ بلکہ اگر کوئی لائبریری قائم کرنے کی بات بھی کرے تو اس کو ایک غیر ضروری گفتگو کہہ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا جائے گا۔ جبکہ ماضی میں ہماری شاندار اور جاندار تاریخ اور ہمارے علمی کارنامے اکثر علماء وفضلاءاور ان کی ذاتی اور عوامی لائبریریوں کے ہی مرہونِ منت ہیں ۔ بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ماضی میں لائبریریوں سے اسی شغف کی وجہ سے سارے عالم میں ہماری دینی ودنیاوی ترقی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ جب سے ہم نے لائبریریوں کی اہمیت کا یہ سبق بھلایا ہے تاریخ میں ہم خود ایک بھولا بسرا باب بنتے جارہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK