Inquilab Logo

تواضع اختیار کیجئے، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا یہ وصف بہت پسند ہے

Updated: August 07, 2020, 9:23 AM IST | Mufti Muneebur Rehman

تواضع کیا ہے؟ دل میں کشادگی رکھنا، عجز و انکسار کو اپنانا، بندگان خدا سے محبت کرنا، اُن کی مدد اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کرنا، وغیرہ۔ یہ لفظ کئی قیمتی صفات کو جامع ہے ، اللہ تواضع کرنے والوں کو رفعت عطا کرتا ہے

Namaz - Pic : INN
نماز ۔ تصویر : آئی این این

تواضع کے معنی ہیں:’’عجزو انکسار، اپنے آپ کو فروتر سمجھنا، دوسروں کوحسب ِ مراتب احترام دینا‘‘، اس کے ایک معنی ہیں:’’حق کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور شریعت کے حکم کو بلاچوں وچرا تسلیم کرنا۔‘‘
دینی امور میں تواضع کے معنی ہیں: رب کی رضا پر راضی ہونا، یعنی بندہ رب کی بندگی محض اس لئے نہ کرے کہ دین کی بات اس کی رائے، خواہش، مزاج اور عادت کے مطابق ہے، بلکہ اس لئے کرے کہ وہ شارع کا حکم ہے۔ دین کے لئے عاجزی اختیار کرنا، یعنی رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک جانا۔ تواضع اعلیٰ انسانی قدر ہے، اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ وصف بہت پسند ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صدقے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی، معاف کرنے سے اللہ عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا کیلئے تواضع کرتا ہے، اللہ اُسے رفعت عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تواضع کا قائل بندہ اپنے دل میں کشادگی رکھتا ہے اور دوسروں کی غلطی معاف کردیتا ہے۔ ایک عَجز و انکسار اضطراری ہے، یعنی حالات کے جبرکا نتیجہ ہوتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے: ’’گداگر تواضع کند خوئے اُوست‘‘۔ اس کا مفہوم  یہ ہے کہ فقیر اگر عاجزی اختیار نہ کرے، تو اُسے خیرات کون دے گا، یہ تو اس کی مجبوری ہے، لیکن اگر کوئی صاحبِ منصب تواضع کرے تو یہ اس کا وصف ِکمال ہوتا ہے اور اس کی خوبی قرار پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں اسے رفعت و سرفرازی عطا فرماتا ہے۔  حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائشہ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں، میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس کی کمر کعبے کے برابر تھی، اس نے کہا: آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: آپ چاہیں تونبوت اور بندگی کو اختیار کرلیں اور چاہیں تو نبوت اور بادشاہت کو اختیار کرلیں، تو میں نے جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا، انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ عاجزی کو اختیار کریں، تو میں نے کہا: میں نبوت اور بندگی کو اختیار کرتا ہوں۔‘‘ (شرح  السنہ،ج۱۳)
’’معراج النبی ﷺ کے موقع پر جب نبی ﷺ درجاتِ عالیہ اور مراتب ِ رفیعہ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ’’اے محمد! میں آپ کو شرف دینا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اپنی عبودیتِ خاصّہ کا شرف عطا کیجئے تو اللہ تعالیٰ نے آیتِ معراج نازل فرمائی۔‘‘ (سبل الھدیٰ والرشاد، ج۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا فقر اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا، چنانچہ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے کمزوروں میں تلاش کرو، کیونکہ تمہیں انہی کمزوروں کی (دعائوں کی) برکت سے رزق عطا کیا جاتا ہے اور نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘ (ترمذی) 
لوگوں کا ظاہری حال دیکھ کر انہیں حقیر نہیں سمجھنا چاہئے، حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہت سے پراگندہ حال ایسے ہیں کہ انہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے۔  (دوسری حدیث میں ہے: ’’(ظاہری حال کو دیکھ کر) لوگ ان کی طرف نظرِ التفات نہیں کرتے۔‘‘ (اَلْمُسْتدرک) لیکن (اللہ کی بارگاہ میں ان کی محبوبیت کا عالم یہ ہے کہ) اگر وہ کسی بات کے بارے میں اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو فرماتا ہے۔‘‘ ( مسلم)
فقراء صحابہ کرام صہیب، یاسر، عمار، مقداداور بلال رضی اللہ عنہم حضورؐ کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ قریش کے سرداروں اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن وغیرہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر آپؐ ہمارے لئے ایک وقت مخصوص کردیں، جس میں یہ خستہ حال لوگ نہ ہوں، تو ہم آپؐ کی بات سن لیں گے، لیکن ان کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھنا ہماری توہین ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۱) ’’(اے رسول!) اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ لازم رکھیں جو اپنے رب کی رضا کیلئے صبح و شام اُس کی عبادت کرتے ہیں اور آپ اپنی نگاہِ التفات کو اُن سے نہ ہٹائیں۔‘‘ (الکہف:۲۸) 
 (۲)’’اور (اے رسول!) آپ ان لوگوںکو دور نہ کیجئے جو اپنے رب کی رضا کے لئے صبح وشام اُسے پکارتے ہیں۔‘‘ (الانعام:۵۲) حضرت خباب بیان کرتے ہیں: (اس کے بعد) ہم جب نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے اور مجلس کے برخاست ہونے کا وقت آجاتا تو ہم خود کھڑے ہوجاتے اور رسولؐ اللہ کو چھوڑ دیتے یہاں تک کہ آپؐ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے۔ ( ابن ماجہ)
حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک شخص کا گزرہوا، آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: اِس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے، انہوں نے عرض کی: یہ اس قابل ہے کہ اگریہ نکاح کا پیغام دے تو اُسے قبول کیا جائے، کسی کی سفارش کرے تو اُسے مان لیا جائے اور کوئی بات کرے تو اُسے توجہ سے سنا جائے۔ راوی بیان کرتے ہیں: پھر آپﷺ خاموش ہوگئے، پھر مسلمانوں میں سے ایک فقیر کا گزر ہوا، آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا: اس شخص کے بارے میں تم کیا کہتے ہو، انہوں نے عرض کی: یہ اس قابل ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو قبول نہ کیا جائے، کسی کی سفارش کرے تو نہ مانی جائے اور کوئی بات کہے تو اُسے توجہ سے نہ سنا جائے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (تم جس کی تعریف کر رہے تھے اگر) اُس جیسوں سے زمین بھر جائے، تو یہ ایک (دوسرا شخص) اُن سب پر بھاری ہوگا۔‘‘ (بخاری)
رسول اللہ ﷺ دعا میں تضرع اور عجزو انکسار کامظاہرہ فرماتے، حدیث پاک میں ہے: ’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع نہ دے، ایسے قلب سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کے اندر تیرے لئے عاجزی نہ ہو، ایسی دعا سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو قبول نہ ہو، ایسے نفس سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو کبھی سیر نہ ہواور بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ بدترین ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ یہ بدترین رازداں ہے اور سستی، بخل، بزدلی اور بڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، عمر کی اُس منزل سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو انسان کو بے توقیر بنادے، دجال کے فتنے، قبر کے عذاب اور حیات وموت کے ہر فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ! ہم تجھ سے ایسے دل کا سوال کرتے ہیں جوآہ وزاری کرنے والا اورپیکر عجز ہو، جو تیری طرف رجوع کرنے والا ہو، اے اللہ! میں تجھ سے ایسے اعمال کا سوال کرتا ہوں جو تیری مغفرت کا سبب بننے والے اور تیرے عذاب سے نجات دینے والے ہیں اورہم ہر گناہ سے سلامتی اور ہر نیکی کی توفیق مانگتے ہیں جو جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کا وسیلہ ہوں۔‘‘ آپؐ سجدہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’اے اللہ! میرا قلب اور قالب دونوں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں، میرا دل تجھ پر ایمان لایا، تونے مجھ پر جو نعمتیں فرمائیں، میں اُن کا اعتراف کرتا ہوں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ (المستدرک)
حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: ’’مساکین سے محبت کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، اسی حالت میں مجھے موت عطا فرما اور قیامت کے دن مجھے مساکین کی جماعت میں اٹھا۔‘‘ (ترمذی) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’سو، اللہ کی عظیم رحمت کے سبب آپ مسلمانوں کے لئے نرم دل ہوگئے اور اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے اردگرد سے منتشر ہوجاتے، سو انہیں معاف کیجئے اور ان کے لئے بخشش کی دعا کیجئے اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیجئے، پھر جب آپ (کسی کام کا) پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پر بھروسا کیجیے، بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۵۹) رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ نے میری جانب وحی فرمائی ہے کہ تواضع کرو، یہاں تک کہ نہ کوئی دوسرے پر فخر کرے اور نہ دوسرے پر زیادتی کرے۔‘‘ (مسلم) عام طور پر ہر بڑے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس سے کم تراور کم عمر اُسے سلام کرنے میں پہل کریں لیکن رسول اللہﷺ کا شعاریہ تھا: ’’حضرت انس بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ کا گزر بچوں کے پاس سے ہوا تو آپﷺ نے انہیں سلام کیا اور یہی آپ کا معمول تھا۔‘‘ (بخاری)آج کوئی عام مقرر بھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کی تقریر کے درمیان خلل ڈالے لیکن نبی کریمﷺ کا شعار اس سے مختلف تھا، حدیث شریف میں ہے: ’’تمیم بن اُسید بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، اُس وقت آپؐ خطبہ دے رہے تھے، میں نے عرض کی: یارسولؐ اللہ!ایک اجنبی آیا ہے جو اپنے دین کو نہیں جانتا، وہ دین کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے، رسولؐ اللہ  نے خطبہ موقوف کیا اور میری جانب متوجہ ہوئے یہاں تک کہ میرے قریب آگئے، ایک کرسی لائی گئی، آپؐ اس پر تشریف فرما ہوئے اور جو علم اللہ نے آپ کو عطا کیا تھا، اس میں سے مجھے تعلیم فرمانے لگے، پھر جاکر آپ نے اپنے خطبے کو مکمل فرمایا۔‘‘ (مسلم)
 لوگ بعض پیشوں کو حقیر سمجھتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کا شعار اس سے مختلف تھا، حدیث پاک میں ہے: ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں چَرائی ہیں، صحابہ کرام نے پوچھا: (یارسولؐ اللہ!) اور آپؐ نے بھی؟ آپؐ نے فرمایا: میں چند قیراط کے عوض مکے والوں کی بکریاں چَرایا کرتا تھا۔‘‘ (بخاری) آپ ﷺ نرم خو تھے، اکثر تبسم فرماتے رہتے، آپ ؐ کوصحابہ کی محفل میں کبھی پائوں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔’’ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے منبر پر فرمایا: لوگو! تواضع کرو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو اللہ کی رضا کے لئے تواضع کرتاہے، اللہ اُسے سربلند فرماتا ہے، وہ (شخص) اپنے دل میں خود کو معمولی سمجھتا ہے، جبکہ لوگوں کی نظروں میں عظیم القدر ہوتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے،اللہ اُسے گرادیتا ہے، وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوتا ہے۔‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK