Inquilab Logo

دُنیا کی زیب وزینت کی کشش انسان کی کمزوری ہے

Updated: January 22, 2021, 11:52 AM IST | Mufti Muneebur Rehman

لیکن انسان اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ دولت وجاہ کبھی اللہ کا انعام ہوتا ہے اور کبھی رب العالمین کی طرف سے امتحان

Jammu Kashmir - Pic : INN
جموں کشمیر ۔ تصویر : آئی این این

عربی زبان میں دنیایا تو دُنُوْئَ ۃْ یا دَنَائَ ۃْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں:’’خسیس ہونا، کمینہ و ذلیل ہونا‘‘یا ’’دَنِیْئٌ‘‘ سے یا ’’دُنُوٌّ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی ہیں: کسی چیز کے قریب ہونا، کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں قریب ترین ہے، الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
دنیائے دَنی کو نقشِ فانی سمجھو
رودادِ جہاں کو اِک کہانی سمجھو
پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو
 احادیثِ مبارکہ میں ہے:
  ’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: دنیا میں اس طرح (اجنبی بن کر) رہو کہ گویا تم مسافر ہو یا راستہ عبور کرنے والے (یعنی اسے اپنی مستقل قرارگاہ نہ سمجھو)۔ عبداللہؓ بن عمر کہا کرتے تھے: جب تم شام کرلو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرواور اپنی تندرستی کے زمانے میں اپنی (ممکنہ) بیماری کے لئے کچھ پس انداز کر کے رکھو اور اپنی حیات سے اپنی موت (یعنی عاقبت )کے لئے کچھ تیاری کر کے رکھو۔‘‘ (صحیح البخاری)
 رسول اللہﷺ نے آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلے میں دنیوی نعمتوں کے فانی اور  ناپائیدار ہونے کا احساس دلانے کیلئے فرمایا:  ’’آخرت کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں ایسی ہیں جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ تمہاری انگلی کو لاحق ہونے والی تراوٹ سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) دوسری حدیث میں دنیا کی نعمتوں کی ناپائیداری کو ایک مثال سے واضح فرمایا: ’’حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کا گزر بکری کے ایک کن کٹے مردہ  بچے کے پاس سے ہوا۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کوئی اسے ایک درہم قیمت میں لے گا، انہوں نے عرض کیا: ہم اسے کسی بھی قیمت پر لینا پسند نہیں کریں گے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک (آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں )اس سے بھی زیادہ بے توقیر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم کو بشارت ہو اور اس چیز کی توقع کرو جو تم کو خوش کرے گی، پس اللہ کی قسم! مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں ہے، لیکن مجھے تم پر خوف یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی، پس تم دنیا میں اس طرح رغبت کرو گے جس طرح انہوں نے رغبت کی تھی اور دنیا تم کو اس طرح ہلاک کردے گی جس طرح اس (دنیا) نے ان کو ہلاک کردیا تھا۔‘‘ (صحیح البخاری)
 حضرت کعبؓ بن عیاض بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کے لئے ایک آزمائش ہے اور میری امت کی آزمائش مال ہے۔‘‘ (سنن ترمذی)
 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: ابن آدم سے قیامت کے دن پانچ سوال کئے جائیں گے: یہ کہ اُس نے اپنی زندگی کیسے گزاری، اپنے عالَم شباب کو کیسے ضائع کیا، اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم کے تقاضوں کے مطابق کس حد تک عمل کیا۔‘‘ (سنن ترمذی)
 عام انسانی فطرت یہ ہے کہ جس چیز کی کثرت اور فراوانی ہوجائے، اُس سے طبیعت اُچاٹ ہوجاتی ہے، اُس کی خواہش ماند پڑنے لگتی ہے، لیکن دنیا کے مال وزر اور متاع واسباب کی، اس میں نعمت ِ اقتدار بھی شامل ہے، جتنی کثرت ہوتی ہے، اتنی ہی اُس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور حرص وہوس میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کا مشاہدہ ہے۔ اسی حقیقت کو احادیثِ مبارکہ میں یوں بیان فرمایا: حضرت عباس بن سہل بیان کرتے ہیں: میں نے عبداللہؓ بن زبیر کو مکہ  مکرمہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگو! نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے: اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرے گا اور اگر اسے دوسری وادی بھی دے دی جائے تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گااور ابن آدم کے پیٹ کو کوئی چیز نہیں بھرے گی سوائے قبر کی مٹی کے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جو اس سے توبہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاری)
  رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال، اُس کے جمع کردہ مال میں اُس کا حصہ تو فقط تین چیزیں ہیں: ایک جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا، دوسرا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا وہ جو اُس نے اللہ کی راہ میں دے دیا اور وہ اس کیلئے ذخیرۂ آخرت بن گیااور جو کچھ اس کے سوا ہے، سو وہ سفرِ آخرت پر رواں دواں ہے جسے وہ  آخر میں لوگوں (وارثوں) کیلئے چھوڑ جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے فرمایا: بنی آدم کا صرف تین چیزوں میں حق ہے: رہنے کے لئے گھر، بدن چھپانے کیلئے لباس اور سامانِ خوراک۔‘‘ (سنن ترمذی)
 حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جس کے نزدیک اُس کے وارث کا مال اُس کے اپنے مال سے زیادہ محبوب ہے، صحابہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو وارث کے مال کے مقابلے میں اپنا مال زیادہ محبوب ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: پس تمہارا مال تو وہ ہے جو تم نے (آخرت کے لئے )آگے بھیجا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا، وہ تو اس کے وارث کا مال ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
  ’’مال اور اولاد (تو صرف)  دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور (حقیقت میں) باقی رہنے والی (تو) نیکیاں (ہیں جو) آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے (بھی) بہتر ہیں اور آرزو کے لحاظ سے (بھی) خوب تر ہیں۔‘‘ (الکہف:۴۶)
 دنیا کی زیب وزینت کی کشش انسان کی کمزوری ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: 
 ’’لوگوں کیلئے دل پسند چیزوں یعنی عورتوں،  بیٹوں، سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانوں، نشان زدہ گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتی کی محبت دلکش بنادی گئی ہے، یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس ہی بہترین ٹھکانا ہے۔‘‘
(آل عمران:۱۴)
 انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ دنیا کی ناپائیدار چیزوں کو ابدی اور دائمی سمجھ لیتا ہے اور آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور آپ انہیں دو مردوں کا قصہ سنائیے جن میں سے ایک شخص کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے، جن کے چاروں طرف ہم نے کھجور کے درختوں کی باڑھ  لگادی تھی اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیت پیدا کئے تھے،   دونوں باغ خوب پھل لائے اور پیداوار میں کوئی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان دریا رواں کردیئے تھے، جس شخص کے پاس پھل تھے، اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا: ’’میں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میری افراد ی قوت بھی زیادہ ہے۔‘‘
 یہ طویل قصہ سورہ کہف کی  آیات نمبر ۲۸؍ تا ۴۶؍ میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہواکہ انسان دولت وجاہ کو اپنے لئے اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت و محبوبیت کا سبب سمجھ لیتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر بالفرض قیامت قائم بھی ہوگئی، تو وہاں بھی میرے وارے نیارے ہوں گے، کیونکہ میں اللہ کا محبوب ہوں، لیکن انسان اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ دولت وجاہ کبھی اللہ کا انعام ہوتا ہے اور کبھی اللہ کی طرف سے امتحان۔ سورۂ کہف کی ان آیات نے اس حقیقت کو واضح کردیا۔ 
 حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہت سے افراد پراگندہ حال نظر آئیں گے، لوگ انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیں گے، (لیکن اللہ کی بارگاہ میں اُن کی مقبولیت کا عالَم یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کی قسم کھاکر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قسم میں سچا ثابت فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
 ’’مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں: اُن کے والد سعد نے گمان کیا کہ انہیں (شجاعت اور سخاوت کی وجہ سے) اپنے سے کمتر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  تمہیں جو نصرتِ الٰہی اور رزق کی کشادگی ملتی ہے، یہ کمزوروں کی دعائوں کی برکت سے ملتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دنیا کی زندگی کی مثال محض اس پانی کی طرح ہے جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کی وجہ سے زمین کی وہ پیداوار خوب گھنی ہوگئی جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں، حتیٰ کہ عین اس وقت جب کھیتیاں اپنی تروتازگی اور شادابی کے ساتھ لہلہانے لگیں اور ان کے مالکوں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ ان پر قادر ہیں، تو اچانک رات یا دن کو ان پر ہمارا عذاب آگیا، پس ہم نے ان کھیتوں کو کٹا ہوا (ڈھیر) بنادیا جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں، غوروفکر کرنے والوں کے لئے ہم اسی طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں‘‘ (یونس:۲۴)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK