Inquilab Logo

بہار اور ضمنی انتخابات کے نتائج اور مضمرات

Updated: November 19, 2020, 12:31 PM IST | Khalid Shaikh

نتیش کمار کے لئے حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا۔ بڑی پارٹی ہونے کے ناطے حکومت اور پالیسی معاملات میں بی جے پی کا عمل دخل بڑھے گا اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی نیتوں کے بارے میں مشکوک رہیں گی ۔

Bihar NDA - Pic : PTI
بہار این ڈی اے ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 بہارالیکشن کے نتیجے نے ثابت کردیا کہ نتیش کمار اب ’سوشان بابو‘ نہیں رہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ان کی غیر مؤثر کارکردگی ، کووڈ۔۱۹؍ اورلاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں کی حالت زار کے تئیں بے حسی اور سیلابی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی ، عوامی ناراضی کا سبب بنی تو تیجسوی کی انتخابی حکمت عملی ، چراغ پاسوان کی این ڈی اے میں رہتے ہوئے نتیش کمار کی مخالفت اور خود بی جے پی لیڈروں اور ورکروں کا گول مول رویہ ، جے ڈی یو  کو لے ڈوبا۔ ایک زمانہ تھا جب بہار میں قدم جمانے کے لئے بی جے پی ، نتیش اور جے ڈی  یو  کی دست نگر تھی۔ نتائج نے بازی پلٹ دی۔ سیاسی مفاد اور اقتدار کی ہوس کیا نہیں کرواتی ۔۲۰۱۷ء سے پہلے  نتیش اور مودی کے تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔ ۲۰۱۰ء کے الیکشن میں نتیش نے مودی کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا تو جواب میں مودی نے ان کے ڈی این ا ے جانچ کی مانگ کی تھی۔ لیکن ۲۰۱۵ء میں مہاگٹھ بندھن کا وزیراعلیٰ بننے کے ۲۰؍ مہینے بعد آرجےڈی سے اختلاف کی بناء پر نتیش نے استعفیٰ دیدیا اور ۲۰۱۷ء میں مودی کی مدد سے دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ 
  حالیہ الیکشن میں تیسرے نمبر کی پارٹی ہونے کے باوجود نتیش کو وزیراعلیٰ بنانا ، بی جے پی کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اس کے لیڈر ان کی پلٹی مارنے کی خصلت سے واقف ہیں ۔ اس لئے وہ یہ احسان جتاکرکہ ہم نے وزیراعلیٰ بناکر اپنا وعدہ پورا کیا، نتیش کو خوش رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ۲۰۲۵ء کے الیکشن میں اپنے بل پر حکومت بناسکیں ۔یوں بھی نتیش بھلے ہی وزیراعلیٰ ہوں ، حکومت بی جے پی کی ہوگی اور حکم صاحب بہادر ان مودی اورامیت شاہ کا چلے گا ۔ نتیش اس صورت حال کو کب تک برداشت کریں گے، دیکھنا ہوگا۔ اگر انہوںنے گھٹن محسوس کی تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ویسے بی جے پی کے مقابلے انہیں تیجسوی سے معاملات کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی جو الیکشن میں مودی کیلئے چیلنجر ثابت ہوئے۔ مقابلہ کانٹے کا تھا اس لئے کئی سیٹوں پر جیت کا مارجن   بہت کم تھا۔ ہِلسا  میں آر جے ڈی کے امیدوار کو صرف ۱۲؍ ووٹوں سے شکست ہوئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر الیکشن میں کانگریس کو ۷۰؍ سیٹیں نہ مختص کی جاتیں تو اکزٹ پول کے مطابق فیصلہ مہاگٹھ بندھن کے حق میں ہوتا ۔ مصلحت جو بھی رہی  ہو، نقصان گٹھ بندھن کا ہوا اور کانگریس جس کے احیاء کا یہ بہترین موقع تھا، اپنا رہا سہا وقار واعتبار کھوبیٹھی۔ اگلے سال کئی ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں وہاں کی علاقائی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ ساجھیداری میں محتاط رہیں گی۔ اکھلیش یادو نےابھی سے یہ اعلان کردیا ہے کہ ۲۰۲۲ء کے یوپی الیکشن میں کسی بڑی پارٹی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے۔
 کانگریس کا حشر دیکھ کر اس کے لیڈروں میں ایک بار پھر مایوسی اور بے چینی پیدا ہوگئی    لیکن ہائی کمان خاموش ہے ۔ یہ سلسلہ ۲۰۱۴ء کی شرمناک شکست کے بعد سے مستثنیات کو چھوڑ کر اب تک چلا آرہا ہے۔ شکست وریخت کانگریس کا مقدر بنتی جارہی ہے۔ اس کا مزید ثبوت ۵۹؍ سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جن میں بی جے پی کو ۴۱؍اور کانگریس کو محض ۱۱؍ سیٹیں ملیں۔ مطلب صاف ہے کہ اپوزیشن کی حیثیت سے قومی سطح پر کانگریس کا وجود تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اگست میں کانگریس کے ۲۳؍ سینئر لیڈروں نے ایک خط میں پارٹی کی گرتی ساکھ اور خامیاں اُجاگر کرتے ہوئے کل وقتی صدر کی تقرری اور ورکنگ کمیٹی کے الیکشن کے ساتھ وسیع پیمانے پر اصلاحات  کا مطالبہ کیا تھا جس پر عمل نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر راہل گاندھی کو دوبارہ صدر بنایا گیا تویہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ صدر نہروگاندھی خاندان کے باہر کا ہونا چاہئے۔ بہر حال صدر جو بھی ہو اسے سب سے پہلے پارٹی کو ان عناصر سے پاک کرنا ہوگا جو خسارے کا سبب ہیں اور ان کی جگہ پارٹی کے اندر اور باہر سے مرکزی اور علاقائی سطح پر ایسے باصلاحیت اور ایکٹیو سینئر اور نوجوان لیڈروں کو منتخب کرنا ہوگا جو پارٹی میں نئی جان ڈال سکیں۔ 
  نتیش کمار کے لئے حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا۔ بڑی پارٹی ہونے کے ناطے حکومت اور پالیسی معاملات میں بی جے پی کا عمل دخل بڑھے گا اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی نیتوں کے بارے میں مشکوک رہیں گی ۔ یہی نہیں ایک مضبوط اور مؤثر اپوزیشن کی حیثیت سے مہاگٹھ بندھن نتیش کو گھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا جن کیلئےسب سے بڑا چیلنج ۱۹؍ لاکھ ملازمتوں کی فراہمی   ہوگا۔ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نتیش اسے بی جے پی کی بے بی بتا کر اپنا پلّہ نہیں جھاڑ سکتے ۔ ان حالات میں ان کی بی جے پی سے کب تک اورکیسے نبھے گی، کہنا مشکل ہے۔
 بہار الیکشن کا سب سے زیادہ چونکانے والا نتیجہ سیمانچل کے مسلم اکثریتی خطے میں مجلس اتحاد المسلمین کی پانچ سیٹوں پر کامیابی ہے۔ بی جے پی نے تو اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کانگریسی لیڈروں کے پیٹ میں درد اٹھا ۔ انہوںنے مجلس کو ’ووٹ کٹوا‘ کہہ کر اپنی بھڑاس نکالی جو اعدادوشمار سے میل نہیں کھاتی۔ مجلس نے ۲۰ ؍ سیٹوں پر الیکشن لڑا جن میں ۹؍ سیٹیں گٹھ بندھن کو اور ۶؍ سیٹیں این ڈی اے کو ملیں۔ پھر مجلس ووٹ کٹوا کیسے ہوئی؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسدالدین اویسی نے الیکشن سے پہلے آر جے ڈی لیڈروں سے مل کر الیکشن ساتھ لڑنے کی تجویز رکھی تھی جسے ٹھکرادیا گیا۔ دراصل نام نہاد سیکولر پارٹیاں بی جے پی کی پولرائزنگ سیاست سے اتنا مرعوب ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی مسلمان یا مسلم پارٹیوں کے ساتھ نظر آنا نہیں چاہتیں۔ کیرالا میں مسلم لیگ، کانگریس کے یوڈی ایف کا اور مہاراشٹر میں کانگریس شیوسینا کی مہاوکاس اگھاڑی کا حصہ ہے۔ یہ دُہرا معیار اور منافقت ہی سارے فساد کی جڑہے ایسے میں مجلس کی کامیابی اس منافقت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ مانا کہ مجلس میں کچھ ایسے لیڈر ہیں جو اپنے بیانات میں احتیاط نہیں برتتے لیکن اسدالدین اویسی نے تو ہمیشہ مسلمانوں اور پچھڑے طبقات کیلئے آئین میں دیئے گئے حقوق اور سہولتوں کا مطالبہ کیا ہے۔ اس میں کیا غلط ہے ؟ اگر سیکولر پارٹیاں مجلس کو اپنے محاذ کا حصہ بنائیں تو اُس میں مجلس کے ساتھ ان کا بھی فائدہ اور مسلم ووٹ بٹنے سے بچ جائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK