Inquilab Logo

بی جے پی، کانگریس اور راجستھان

Updated: October 24, 2023, 12:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جن پانچ ریاستوں میں عنقریب الیکشن ہوگا اُن میں سے دو (راجستھان اور چھتیس گڑھ) میں کانگریس کی حکومت ہے، صرف ایک (ایم پی) میں بی جے پی کی حکومت ہے، ایک (تلنگانہ) میں بھارت راشٹریہ سمیتی کا اقتدار ہے اور ایک (میزروم) میں میزورم نیشنل فرنٹ برسراقتدار ہے۔

Ashok Gehlot Photo: INN
اشوک گہلوت ۔ تصویر: آئی این این

جن پانچ ریاستوں  میں عنقریب الیکشن ہوگا اُن میں  سے دو  (راجستھان اور چھتیس گڑھ) میں  کانگریس کی حکومت ہے، صرف ایک (ایم پی) میں  بی جے پی کی حکومت ہے، ایک (تلنگانہ) میں  بھارت راشٹریہ سمیتی کا اقتدار ہے اور ایک (میزروم) میں  میزورم نیشنل فرنٹ برسراقتدار ہے۔ ان ریاستی انتخابات کو اتنی اہمیت ہرگز نہ ملتی، جتنی کہ مل رہی ہے، اگر لوک سبھا کے انتخابات بہت قریب نہ ہوتے۔ بی جے پی کے نقطۂ نظر سے ایک مسئلہ تو یہ ہے، کیونکہ ان انتخابات کو لوک سبھا کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔یہی نہیں  بھارت جوڑو یاترا کے دور میں  ہوئے کرناٹک الیکشن میں  کانگریس کی شاندار فتح کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہے جب کانگریس کی پُرجوش قیادت اور کارکنان بی جے پی کو چیلنج کرنے جارہے ہیں ۔ قارئین جانتے ہیں  کہ راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں  سوائے کانگریس اور بی جے پی کے کوئی اور سیاسی جماعت اتنی طاقتور نہیں  ہے کہ تیسرے نمبر پر بھی شایان شان طریقے سے براجمان ہوسکے، اس لئے ان تین ریاستوں  میں  بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی راست مقابلہ ہے جبکہ تلنگانہ میں  بی جے پی کا اثرورسوخ از حد کم  ہے اور مقابلہ کانگریس اور بھارت راشٹریہ سمیتی کے درمیان ہے جو کل تک تلنگانہ راشٹریہ سمیتی تھی۔ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ چاروں  بڑی ریاستیں  جیت لیں  گی مگر الیکشن محض دعوؤں  سے نہیں  جیتے جاتے، ان کیلئے ایک ایک بوتھ پر محنت کرنی پڑتی ہے چنانچہ دیکھنا ہو گا کہ کانگریس اُتنی محنت کرنے میں  کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں ۔ جہاں  تک اس کے امکانات کا تعلق ہے، وہ بہرحال روشن ہیں ۔ 
 صرف راجستھان کی بات کریں  تو بی جے پی کے اُمیدواروں  کی فہرست جاری ہونے کے بعد جس طرح کا سرپھٹول دیکھنے کو مل رہا ہے یہ اگر کانگریس میں  ہوتا تو حیرت کی بات نہ ہوتی مگر یہ بی جے پی میں  ہورہا ہے۔ وہی بی جے پی  جو گودی میڈیا کے ذریعہ ابھی چند ماہ پہلے تک گہلوت اور پائلٹ تنازع پر بحث کرتے نہیں  تھک رہی تھی، اچانک ایسے حالات سے دوچار ہے جن  میں  اُس کے اپنے کاریہ کرتا اُسے چیلنج کررہے ہیں ۔ پارٹی نے سابقہ اُمیدواروں  کو ٹکٹ نہ دینے (نو رِپیٹ پالیسی) کا اعلان کیا تھا مگر اس کی فہرست میں  ۷۰؍ فیصد سے زائد اُمیدوار پرانے  ہیں ۔ یہی نہیں ، ریاست میں  اپنی کمزور صورتحال  کے پیش نظر پارٹی نے وسندھرا راجے سندھیا کے وفاداروں  کی منہ بھرائی کی خفت اُٹھائی۔کافی عرصے سے وسندھرا کو حاشئے پر رکھنے کے بعد پارٹی کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ ایم پی کے ہاتھ سے کھسکنے کے شدید خطرہ کے پیش نظر بی جے پی جس ایک ریاست سے سب سے زیادہ اُمید وابستہ کئے ہوئے ہے وہ راجستھان ہے۔
  مگر نہ تو گہلوت کچے کھلاڑی ہیں  نہ سچن پائلٹ۔ سابقہ انتخابات (۲۰۱۸ء) میں  راہل گاندھی کی جو مقبولیت تھی اس میں  چار چاند لگ گئے ہیں ۔ پرینکا عوام سے رابطہ بنانے میں  غیر معمولی  مہارت رکھتی ہیں  جبکہ صدرِ کانگریس ملکارجن کھرگے ریاست کی ۱۸؍ فیصد دلت آبادی کو ملتفت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ان کے مقابلے میں  مودی اور امیت شاہ ہیں  جن کے پاس الیکشن جیتنے کے بے شمار وسائل ہیں  مگر فیصلہ چونکہ عوام کرتے ہیں  اس لئے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ پھر ہم سروے ایجنسی تو ہیں  نہیں  کہ جس کو چاہا ’’بھاری بہومت‘‘ دِکھا دیا ۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK