Inquilab Logo

دونوں جنگیں روکی جائیں!

Updated: March 16, 2024, 12:43 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جنگ اسرائیل بمقابلہ غزہ ہو یا روس بمقابلہ یوکرین، انسانی جانوں کا اتلاف، املاک کانقصان، شہریوں کی در بدری، پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ اور غیر معمولی معاشی نقصان۔ دونوں جنگوں کا اب تک کا ’’حاصل‘‘ سوائے لاحاصلی کے کچھ اور نہیں ہے۔ البتہ دونوں جنگوں میں ایک فرق ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جنگ اسرائیل بمقابلہ غزہ ہو یا روس بمقابلہ یوکرین، انسانی جانوں کا اتلاف، املاک کانقصان، شہریوں کی در بدری، پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ اور غیر معمولی معاشی نقصان۔ دونوں جنگوں کا اب تک کا ’’حاصل‘‘ سوائے لاحاصلی کے کچھ اور نہیں ہے۔ البتہ دونوں جنگوں میں ایک فرق ہے۔ روس کے خلاف یوکرین کو مغربی ملکوں کی کافی مدد مل رہی ہے جبکہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں غزہ کو کچھ ملا ہے۔ روس جیسی طاقت کا مقابلہ کرنا یوکرین کیلئے تقریباً ناممکن تھا مگر ترقی یافتہ ملکوں نے یوکرین کوروس کے طویل مدتی مقابلے کیلئے تیار کیا جس کا نتیجہ ہے کہ روس جیسی طاقت سے یوکرین اس طرح لڑرہا ہے جیسے وہ خود روس کے ہم پلہ ہو۔ اسرائیل کے خلاف غزہ کو بھی ایسی مدد مل سکتی تھی مگر دیگا کون؟ سب نے اسرائیل سے دوستی گانٹھ لی ہے۔ اس کے خلاف برائے نام سا کچھ کیا بھی جاتا ہے تو اُسے ویٹو کردیا جاتا ہے۔ دونوں جنگوں کا یہ فرق سب کے سامنے ہے کہ طاقتور روس کمزور یوکرین سے پریشان ہے۔ گزشتہ دنوں روس کی ریفائنریوں پر ہونے والے حملے معمولی نہیں ہیں۔ یوکرین کو مغربی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی تو ایسے حملوں کیلئے درکار اسلحہ اس کے پاس نہیں تھا۔ ریفائنریوں پر یکے بعد دیگرے کئی حملوں کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ یوکرین روس کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اس سے یوکرین کی حربی حکمت عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جنگ کو سوا دو سال ہوجانے کے باوجود اب بھی اس کے تھمنے کے آثار نہیں ہیں۔ یہ جنگ مزید طویل ہوگی کیونکہ اس کا مقصد روس کے حملے کے خلاف یوکرین کو بچانا نہیں، روس کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ سپر پاور جسے بہت پہلے زیر کرلیا گیا، وہ دوبارہ سر نہ اُٹھائے۔
 یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کچھ عرصہ قبل بیان دیا تھا کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، دونوں جانب کا فوجی اور شہری نقصان ہورہا ہے۔ یوکرین کے ۳۱؍ ہزار فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بقول زیلنسکی روس کے ۷۰؍ ہزار فوجی ہلاک (اور ایک لاکھ ۲۰؍ ہزار زخمی) ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کیلئے انسانی جانوں کا اتنا بڑا اتلاف کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ مزید جنگ کیلئے کمربستہ ہیں یعنی مزید لوگوں کو مارنا چاہتے ہیں۔مالی نقصان سے بھی انہیں کوئی دقت نہیں ہے۔ پینٹاگن کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک کی جنگ پر ماسکو ۲۱۱؍ بلین ڈالر سواہا کرچکا ہے۔
 اسرائیل بھی غزہ جنگ پر اب تک کروڑوں ڈالر خرچ کرچکا ہوگا، اس کے اعدادوشمار ہمیں دستیاب نہیں ہوئے مگر روزانہ کی جنگ میں معاشی نقصان تو یقیناً ہے۔ خود اسرائیل کے فوجی مارے گئے ہیں، تل ابیب کو اس کی فکر نہیں ہے۔ وہ غزہ پٹی کو صاف کردینے کے درپے ہے مگر دن رات بمباری کے باوجود اُسے اپنے مقصد میں کامیابی ملتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جیسے جیسے جنگ طویل ہورہی ہے ویسے ویسے اُس پر عالمی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے جس کی کوئی بڑی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور۔اسرائیل پر جو دباؤ عالمی برادری کی جانب سے ہے وہ بہت تاخیر سے آیا اور بہت تھوڑا ہے۔ اس کی وجہ سے تو اسرائیل بم بردار طیاروں کی رفتار بھی مدھم نہیں کریگا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جس طرح یوکرین کو اسلحہ جاتی مدد دی جارہی ہے ویسی ہی غزہ کو بھی دی جائے کیونکہ اس سے ہتھیاروں کی دوڑ نیز تباہی و تاراجی بڑھے گی۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو، دونوں جنگیں روکی جائیں، یہ انسانیت مخالف پروگرام ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK