Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھلائی کی طرف بلانا، بُرائی سے روکنا اہم فریضہ ہے

Updated: November 10, 2023, 4:12 PM IST | Atiq Ahmad Shafiq Barelvi | Mumbai

اس اہم کام کی انجام دہی کے لئے ایمان شرط ہے۔ کیونکہ ایمان ہی انسان کو معروف کا حکم دینے اور منکرسے روکنے کے لئے مسلسل رواں دواں رکھ سکتاہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں کو انگیز کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانے کی صلاحیت پروان چڑھاسکتاہے۔

There must be people among Muslims who keep calling to goodness and forbid from evil. Photo: INN
مسلمانوں میں ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلاتے رہیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ تصویر : آئی این این

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک قرآنی اصطلاح ہے۔ اس کے معنی بھلائیوں کاحکم دینے اور بُرائیوں سے روکنے کے ہیں۔
معروف کے معنی جانے پہچانے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہر وہ فعل ہے جس کی اچھائی اور خوبی کی ہر عقل سلیم گواہی دیتی ہو اور اس کو پسند کرتی ہو۔منکر کے معنی اَن جانے اور نامانوس کے ہیں ۔ یہ معروف کی ضد ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں منکر اس فعل کو کہتے ہیں جس کو ہر سلیم الفطرت انسان بُرا جانتا ہو اور ناپسند کرتا ہو۔
امربالمعروف کامقصد انسانوں کو سماج کے لئے کارآمد اور مفید بناناہے اور نہی عن المنکر کامقصد انسانوں کو سماج کیلئے نقصان دہ بننے سے روکنا ہے۔ امربالمعروف کاسادہ سادینی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مرضیات پرچلنے کاحکم دیاجائے اور سب سے بڑا معروف اللہ کی حاکمیت اور اس کی الوہیت وربوبیت کو قبول کرنا اور اس کی دعوت دینا ہے۔ خیر کے سارے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں ۔ جب کہ نہی عن المنکر کاسادہ سا دینی مفہوم یہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ اور اس کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے روکاہے ان سے آدمی خود رک جائے اور سماج میں رہنے والے دوسرے افراد کو بھی ان سے روکنے کی کوشش کرے۔ سب سے بڑا منکر اللہ کی حاکمیت اور اس کی الوہیت اور ربوبیت کاانکار ہے۔
امربالمعروف و نہی عن المنکراختیاری نہیں ہے کہ آدمی کا دل چاہے تو اس فریضہ کو ادا کرے اور دل نہ چاہے تو نہ ادا کرے۔ بلکہ یہ واجب ہے جس کیلئے خصوصی طور پر امت مسلمہ کو برپا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”دنیامیں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کاحکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“( ﴿آل عمران:۱۱۰﴾)
أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ امت مسلمہ کابنیادی فریضہ یہی ہے کہ وہ تمام انسانوں کی اصلاح کی فکر کرے۔ اس آیت میں صاف طور سے کہا گیا ہے کہ” تم کولوگوں کے لئے نکالا گیاہے اور تم دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلے میں اس لئے افضل ہوکہ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو۔ “ تومنون باللہ کہہ کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ معروف کا حکم دیا جائے اور منکر سے روکا جائے۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”تم میں جو کوئی بُرائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹادے، اس کی قوت نہ ہوتو زبان سے روکے اور اس کی بھی قوت نہ ہوتو دل سے اسے بُرا مانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔“
 (مسلم: کتاب الایمان)
ملت اسلامیہ کو دوسری تمام ملتوں کے مقابلے میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ مقام اس اہم ذمے داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ادائیگی ہی پر موقوف ہے۔ جب تک کسی ملّت یا گروہ کو اپنے منصب و مقام کا ادراک نہ ہو اُس وقت تک وہ اپنی حقیقت اور قدرو قیمت کو نہیں پہچان سکتا۔ ملت کی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ ساری انسانیت کی قیادت و سیادت کرے، لیکن وہ صرف دعوؤں سے اس منصب پر قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس جو صحیح عقیدہ، درست فکر، صحیح علم ومعرفت، اعلیٰ اخلاقی قدریں ، معیاری کردار اور متوازن نظام زندگی ہے، اسے وہ دوسروں تک منتقل کرے اور دنیا کے ہر میدان میں خواہ وہ علم و معرفت کا میدان ہو یا سائنس اور تکنالوجی کا، خواہ وہ حکومت چلانے کا معاملہ ہو یا انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کارگزاری کا یا اسی طرح سے سماجی، رفاہی اور خدمت خلق کا، جب تک ملت اسلامیہ ساری اقوام وملل سے آگے اور بلند نہ ہوگی اس وقت تک وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کافریضہ ادا نہیں کرسکتی۔ یہ ملت اسلامیہ کافریضۂ منصبی ہے کہ وہ زندگی سے منکرات، شرور اور فساد، بگاڑ اور کرپشن، سرکشی و عدوان، ظلم و زیادتی اور شرک کی آلودگی کے خاتمے کی کوشش کرے اور معروف، بھلائی، خیر، سلامتی اور امن کو فروغ دے اور ایسا ماحول بنائے جہاں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائی کا اہتمام کیاجاتاہو۔
اس اہم کام کی انجام دہی کیلئے ایمان شرط ہے۔ کیونکہ ایمان ہی انسان کو معروف کا حکم دینے اور منکرسے روکنے کے لئے مسلسل رواں دواں رکھ سکتاہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیوں کو انگیز کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانے کی صلاحیت پروان چڑھاسکتاہے۔ ایمان کے سرچشمے سے ہی اتحادواتفاق، یکجہتی اور میل محبت کے چشمے اور سوتے پھوٹتے ہیں ۔ ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کی پختگی پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ یاد رہے کہ ایمان جذبۂ ایثار و قربانی کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کاحکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔“ (آل عمران:۱۰۴﴾)
اس آیت میں امت مسلمہ کے داعی گروہ ہونے کی حیثیت سے تین کام بتائے گئے ہیں :
(۱) دعوت الی الخیر (۲) امربالمعروف اور (۳) نہی عن المنکر۔

دعوت الی الخیر: غیرمسلم دنیاکو اسلام کی دعوت دینا اور اس کی طرف بلانا دنیا کا سب سے بڑا کام ہے۔ اسی سے دنیا و آخرت میں انسانیت کی فلاح وابستہ ہے۔ اقامت دین کے لئے پہلا مرحلہ دعوت کا ہی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر لوگ اسلام کے نظام رحمت سے واقف ہی نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا امت مسلمہ کااوّلین فریضہ ہے کہ اللہ کے دین کی دعوت لے کر اُن لوگوں تک پہنچیں جو اس سے بے بہرہ ہیں ۔ یاد رہنا چاہئے کہ دعوت کاکام اقتدار کامحتاج نہیں ۔ البتہ اقتدار کے بغیر امربالمعروف و نہی عن المنکر کے مرحلے کو سر کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ حکومت و اقتدار کے بغیر معروف کو عام کرنا اور منکر کو روک دینا اور حدود و تعزیرات کو اصلی صورت میں نافذ کردینا کارے دارد ہے:
” اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایاہے تاکہ تم دنیا والوں پر گواہ بنو۔“(بقرہ: ۱۴۳﴾)
گویاامت وسط کی بڑی اہم ذمے داری یہ ہے کہ وہ شہادت کا فریضہ اسی طرح ادا کرے، جس طرح اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے ادا کیا۔جس طرح اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے اللہ کے دین کو اس کی مکمل شکل میں اپنی امت تک نہ صرف اپنے قول سے پہنچایابلکہ اپنے عمل سے بھی کرکے دکھایا، ٹھیک اسی طرح سے امت مسلمہ کو دنیا کے ہر ملک اور قوم کے سامنے شہادت حق کا فریضہ ادا کرنا اور دین حنیف کو اس کے اصل روپ میں پہنچانا چاہئے۔
قیامت کے روزجس طرح سے مسلمانوں سے دیگر فرائض و واجبات کے تعلق سے جواب طلبی ہوگی، اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے متعلق بھی پرسش ہوگی۔ پوچھاجائے گاکہ نبی عربی ختم الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین رحمت تم تک پہنچایاتھا، اس کیلئے تم نے کیا سرگرمیاں دکھائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی توعرب ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں بگاڑ اپنی آخری حد کو پہنچ گیا تھا۔ انسانیت نے اپنے پیدا کرنے والے کو بھلادیاتھا۔ نبی ﷺ نے انہی مشرکوں اور کافروں کے سامنے اسلام کو پیش کیا۔ ان کے سامنے دین حق کی قولی و عملی شہادت دی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ذمے داری بتاتے ہوئے فرمایا:
”اے نبیؐ! ہم نے آپ کو شہادت دینے والا، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا، اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بناکر بھیجاہے۔“ ( ﴿الاحزاب: ۴۶-۴۵﴾)
”آپؐ اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہئے۔“ (حج: ۶۷﴾)
﴾”جو کچھ آپ پر نازل کیاگیاہے اس کو پہنچادیجئے۔“ (المائدہ: ۶۷) چنانچہ آپﷺ نے اس ذمے داری کا حق ادا کردیا۔ چونکہ اب قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لئے اب امت مسلمہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دین سے محروم لوگوں تک دین رحمت کو پہنچائے۔
اجتماعی غفلت کاانجام 
امربالمعروف و نہی عن المنکرکاکام کو کرنے پر جہاں دنیا و آخرت کی کامیابی و فلاح کی بشارتیں دی گئی ہیں ،وہیں اس فریضے سے غفلت اور بے پروائی برتنے پر سخت وعیدیں بھی ہیں ۔ اس کام کو بالکل چھوڑ دینا یا اس میں کوتاہی کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سابقہ ملتوں نے جب اس کام کو چھوڑدیا تو ان پر رب العالمین کاغضب نازل ہوا اور ان پر ذلت و مسکنت طاری کردی گئی۔ 
قرآن مجید بنی اسرائیل کی اس طرح تصویر کشی کرتاہے:
”بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اس پر دائوداور عیسیٰؑ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑدیاتھا، بہت ہی بُرا طرزعمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔“ (المائدہ: ۷۸۔۷۹)
اس آیت میں بنی اسرائیل کی سب سے بڑی خرابی یہ بتائی گئی ہے کہ انہوں نے نہی عن المنکر کے فریضے کو چھوڑدیاتھا۔ اس وجہ سے وہ مزید معصیت و گمراہی میں دھنستے چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا عذاب مسلط ہوا اور انبیاء کی زبان سے ان پر لعنت بھیجی گئی۔ یہ کس قدر بدنصیبی کی بات ہے۔ 
سورۂ اعراف میں ہے کہ سماج میں ان کے تین طرح کے گروہ تھے: ایک کھلم کھلا حدودالٰہی کو توڑتا تھااور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کئے ہوئے تھا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو معروف کا حکم دیتے تھے، احکام الٰہی کی پابندی کی طرف متوجہ کرتے تھے اور حکم الٰہی کو توڑنے والوں کو اس حرکت سے روکنے کی کوشش کرتے تھے۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کاتھا جو خود تو اطاعت گزار تھے مگر سرکش لوگوں کی سرکشی، حکم عدولی اور نافرمانی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ بلکہ وہ لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو یہ نصیحت بھی کرتے تھے کہ تم اس کے چکر میں کیوں پڑتے ہو؟ مگر مصلحین کاگروہ ان کو یہ جواب دیتاکہ ہم اپنی ذمے داری ادا کررہے ہیں ، ممکن ہے وہ مان جائیں ۔ اگر وہ نہیں مانے تو کم ازکم ہم تو اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہونے لگی تو اللہ کی جانب سے ان پر عذاب آیا اور اس عذاب سے وہی لوگ بچے جو بھلائی اور اطاعت الٰہی کی نصیحت کا کام انجام دے رہے تھے۔
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ خدائے تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کردے اس وقت تم اس سے دعا کروگے لیکن تمہاری دعا سنی نہیں جائے گی۔“
اسلام ایک نعمت ہے۔ اس کو تسلیم کرلینے کے بعد دوسروں تک پہنچانا اہم ذمہ داری ہے۔ اس سے غفلت کو قرآن نے ظلم سے تعبیر کیاہے: ”ان سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتاہے جو اللہ کی کسی شہادت کو جو ان کے پاس ہے چھپائیں ؟ اللہ اس چیز سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو۔ “ ﴿(البقرہ:۱۴۰﴾)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کو حکم دیاکہ فلاں شہر کو اس کے باشندوں کے ساتھ الٹ دو، اس پر حضرت جبریلؑ نے فرمایاکہ اے رب! اس میں تیرا فلاں بندہ بھی تو ہے جس نے ایک لمحے کیلئے بھی تیری معصیت نہ کی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے حضرت جبریل کو حکم دیاکہ اس شہر کو بشمول اس شخص کے اور سارے لوگوں کے پلٹ دو کیونکہ اس شہر میں لوگ نافرمانی کرتے رہے اور اس (شخص) کے چہرے پر میری خاطر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔“
مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بُرائیوں کو مٹانے کی جدوجہد اور کوشش لازمی ہے اور اس کام کیلئے کسی بڑے مدرسے کا سندیافتہ ہونا، جیدعالم دین ہونا شرط نہیں ہے بلکہ جتنا کچھ بھی دین کی تعلیمات آپ کو معلوم ہیں ان کو دوسروں تک پہنچانا لازم ہے۔ بغیر اس کے انسان نہ تو اللہ کی رضاحاصل کرسکتاہے اور نہ آخرت میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ 
امربالمعروف ونہی عن المنکر : ایک سماجی ضرورت
 امربالمعروف ونہی عن المنکر کا کام صرف دینی وملی فریضہ ہی نہیں ہے، بلکہ معاشرتی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ ماحول کا انسانی زندگی پر کافی اثر پڑتا ہے جس سوسائٹی اور ماحول میں انسان پیداہوتا، پروان چڑھتا اور رہتابستاہے اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ لہٰذا ماحول کو اپنے موافق بنانا ضروری ہے۔ اس بات کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ سماج میں بھلائی کاجذبہ پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کیلئے حالات سازگار ہوں ، بھلائی کرنے والوں کو سہارا اور ہمت ملے اور اگرایسا ماحول نہیں بنتا تو پھر آدمی کو خدا بیزار سماج کے غلط اثرات سے بچانا بڑا مشکل ہوجائے گا۔ نیک اور دیندار آدمی کا ایسے سماج میں رہنا آسان نہیں ہے جو صالح اور پاکیزہ نہ ہو ٹھیک اسی طرح جس طرح کوئی شخص خود تو صفائی ستھرائی رکھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے مگر اس کا گھر گندا رہے تو بھلا بتائیے کہ اس کی ذاتی صفائی اس کو کیا فائدہ پہنچائے گی۔ پھر اس گندگی سے جو بیماریاں جنم لیں گی کیا اس سے وہ خود کو محفوظ رکھ پائے گا۔ یہی معاملہ سماج میں معروف یا منکر کا بھی ہے۔ سماج میں بھلائی ہوگی تو ایک صالح انسان کااس میں جینا آسان ہوگا لیکن اگر معاشرہ بُرائیوں سے لت پت ہوتو خود کو بُرائیوں سے محفوظ رکھنا بڑا مشکل ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK