• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دعوت دین اور احتساب عمل: محبت رسولؐ کے دو اہم تقاضے

Updated: October 31, 2025, 4:12 PM IST | Muhammad Naseer Islahi | Mumbra

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی اہل ایمان کے لئے سرچشمہ ٔ ہدایت اور مرکز ِعشق و محبت ہے۔ مسلم معاشرہ کا سارا نظام آپؐ کے اسوہ ٔ مبارکہ پر قائم ہے اور عمل کی دنیا آپؐؐؐ کی تعلیمات پر استوار ہے۔ آپؐ کا لایا ہوا پیغام،پیغامِ حق ہےاورآپؐ کی سنت و شریعت میزان عمل ہے۔

Propagation of religion is an individual and collective duty of Muslims. Photo: INN
دعوت دین مسلمانوں کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ تصویر: آئی این این
نبی کریم ﷺ سے محبت مومن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اس محبت کا اصل لطف تو آپ ؐ سے شعوری تعلق میں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے بھی ایک بار کلمہ طیبہ کا زبان سے اظہار اور دل سے اقرار کر لیا، گرچہ اس نے اس کلمہ کے مطالبات اور تقاضے پر بہت غور نہ کیا ہو، تب بھی وہ اپنے قائد و محسن جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو زندگی کے آخری لمحہ تک اپنےدل کی ہر دھڑکن میں محسوس کرتا ہے۔ وہ خواب و خیال میں بھی نہیں سوچتا کہ آپؐکی ذات و شخصیت کو ذرہ برابر بھی تکلیف پہنچے۔ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ ؐ سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ تکمیل ایمان کے لئے لازمی ہے۔ عبد اللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم نبی ؐ کے ساتھ تھے۔ آپؐ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ عمر ؓنے آپ سے کہا: یا رسول اللہ! آپؐ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک تم کو میں اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز نہ ہو جاؤں تم مومن نہیں ہو سکتے۔ عمر ؓنے کہا: اب تو بخدا آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو گئے۔ آپ ؐنے فرمایا: اب اے عمر! تم مومن ہو۔ (صحیح البخاری: ۶۶۳۲) 
رسولؐ اللہ کے اس ارشاد سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ آدی صحیح معنوں میں سچا اور مکمل مومن تبھی ہوسکتا ہے جب حضورؐ کی محبت اس کی تمام محبتوں پر غالب ہو جائے۔ وہ رسول ؐ کی محبت پر ہر چیز قربان کردے۔ والدین، اولاد اور معاشرہ کے لوگ کسی راستہ پر چلانا چاہیں اور اللہ کے رسول کسی راہ پر بلائیں تو مومن کا فرض ہے کہ سب کے مطالبات کو ٹھکرا دے اور حضورؐ کی پکار پر لبیک کہے یہاں تک کہ اگر اپنی جان قربان کرنے کا موقع آئے تو اس سے بھی گریز نہ کرے۔ 
آپ ؐ سے محبت کا صرف زبانی اظہار اور اقرارکافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس محبت کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ آپ ؐ سے محبت کا تقاضا صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آپؐ کی شان میں نعتیں کہہ دی جائیں اور مضامین و مقالے لکھ دیئے جائیں یا سیرت النبی کے عنوان سے جلسوں، کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کر لیا جائے یا ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرکچھ نعرہ لگا لئے جائیں یا کچھ بینرس آویزاں محبت کا اظہار کر دیا جائے۔ 
آ پ ؐ سےمحبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ آپؐ کی اطاعت کی جائے۔ یہ اطاعت بھی چندعبادات اور زندگی کےچند جزوی امور سے متعلق احکام اخذ کرلینے تک محدود نہیں ہےبلکہ یہ اطاعت ایک مومن کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں اطاعت مطلوب ہے۔ بڑی اور مرکزی اطاعت یہ ہے کہ جس پیغام حق کو آپؐ لے کر آئے، اس پیغام کی تبلیغ اور اشاعت کی جائے، جس دین کی طرف آپ ؐ نے بلایا آج لوگوں کو اس دین کی دعوت دی جائے، آپؐ نےجس نظامِ حیات کو قائم فرمایا، اسی کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ آپؐ نے انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے جس طرح کی انقلابی تحریک چلائی وہی تحریک چلائی جائے۔ یہ بھی حضور ؐ کی سنتیں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں چھوٹی چھوٹی سنتوں پر تو بہت زور اور تاکید ہے مگراِن بڑی سنتوں سے ہماری اکثریت غافل ہے۔ 
دعوت دین مسلمانوں کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کی اہمیت صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ آخرت کی ابدی زندگی کے اعتبارسے بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کے وجود و بقا کاانحصار، امن و امان کا قیام، عدل و انصاف کا حصول، ان کی مادی خوشحالی اور ترقی کا دارومدار اسی فریضۂ دعوت کی ادائیگی پر ہے۔ مسلمانوں کیلئےاپنی جان و مال کے تحفظ، اپنی سربلندی، عزت اور عظمت کے لئے اس فریضہ کی ادائیگی نا گزیر ہے۔ مسلمان جب اس فریضہ کی ادائیگی سے غافل ہو گئے اور انہوں نے دنیا کو اسلام کی نعمت سے محروم رکھا تو قدرت نے ان کو عبرتناک سزا دی، ان کی حکومتوں کو ایسا زوال آیا کہ دوبارہ عروج ایک خواب بن گیا۔ آپ ؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے اپنی ۲۳؍ سالہ پیغمبرانہ جدو جہد میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزارا، جب آپؐ کی توجہ دعوت اسلام کے مشن سے ہٹی ہو۔ 
اس فریضہ کے متعلق میدانِ حشر میں بھی ہم مسلمانوں کو جواب دینا ہوگا کہ اپنے ہم وطنوں کے سامنے ہم نے اسلام کی دعوت پیش کی تھی یا نہیں ؟ اس کام میں ہم سے کوئی کوتاہی اور غفلت تو نہیں ہوئی؟ سوچئے ! اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا۔ دعوت سےغفلت کیلئےہم اللہ کے سامنے کیا عذر پیش کرینگے؟ اس زمین پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت اسلام ہے۔ اسلام پوری انسانیت کیلئےہے۔ یہ نعمت ہمیں میسر آئی اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے، جو لوگ اس سے محروم ہیں ان تک اسے پہنچا نا چاہئے۔ یہی انسانوں کی سب سے بڑی خدمت اور خیر خواہی ہو گی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK