• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

”بس مجھے دیکھتے چلو، تم اپنی منزل پا لو گے“

Updated: October 31, 2025, 5:25 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

ایک مسافر رات کے سنسان صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ آسمان پر ستارے ہیں مگر کوئی سمت واضح نہیں۔ قدموں کے نیچے ریت ہے اور چاروں طرف خاموشی۔ وہ چلنا چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ کس طرف

The Quran is actually a book of guidance for life, and seeking guidance from it is the sign of a living nation. Photo: INN
قرآن دراصل زندگی کی رہنمائی کی کتاب ہے اور اس سے ہدایت حاصل کرنا ہی ایک زندہ قوم کی علامت ہے۔ تصویر: آئی این این
ایک مسافر رات کے سنسان صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ آسمان پر ستارے ہیں مگر کوئی سمت واضح نہیں۔ قدموں کے نیچے ریت ہے اور چاروں طرف خاموشی۔ وہ چلنا چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ کس طرف۔ اچانک اُفق پر ایک ہلکی سی روشنی نمودار ہوتی ہے جیسے کسی نے تاریکی کے پردے میں امید کی سوئی چبھو دی ہو۔ وہ روشنی اسے پکارتی ہے:”بس مجھے دیکھتے چلو، تم اپنی منزل پا لو گے۔“ وہ روشنی کے تعاقب میں بڑھتا ہے۔ کبھی طوفان اس کی آنکھوں میں ریت بھرتے ہیں، کبھی تھکن کے مارے وہ زمین پر گر پڑتا ہے؛ مگر روشنی غائب نہیں ہوتی۔ وہ اُسے یقین دلاتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں۔ کچھ دیر بعد وہ دیکھتا ہے کہ وہ روشنی کسی عارضی چراغ کی نہیں، بلکہ ایک بلند مینار پر نصب منارۂ نور کی ہے جو صدیوں سے راہ گم کردہ قافلوں کو راستہ دکھاتا آ رہا ہے۔
انسان خواہ کسی میدانِ فکر، فن، یا زندگی سے تعلق رکھتا ہو، وہ جب اس کے قریب آتا ہے تو اپنی ہی راہ دیکھتا ہے۔ سپاہی کو شجاعت کا سبق، تاجر کو دیانت کا اصول، عالم کو علم کا افق، اور حاکم کو عدل کا دستور ملتا ہے۔ ہر ذہن اس سے وہی پاتا ہے جو اس کی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔ یہ کتاب کسی ایک راہ کی رہنما نہیں، بلکہ زندگی کے ہر موڑ، ہر اندھیرے اور ہر پیچ پر روشنی بکھیرنے والی مشعل ہے۔
یہی تو اس آسمانی کتاب کا زندہ معجزہ ہے کہ وہ ہر ذہن کو اس کی اپنی سمت سے مخاطب کرتی ہے۔ وہ جس کے سامنے آتی ہے، اس کے شعور کے دائرے میں اتر جاتی ہے۔ ایک سائنس داں اسے پڑھتا ہے تو کائنات کے قوانین کی معنوی جہتیں روشن ہو جاتی ہیں؛ ایک ماہرِ معاشیات مطالعہ کرتا ہے تو عدل و توازن کا وہ نظام آشکار ہوتا ہے جو انسانی معیشت کو ظلم و استحصال سے پاک کر دیتا ہے؛ ایک رہبر اسے کھولتا ہے تو اس کے اندر قیادت کا ضابطہ، نظمِ اجتماعی کا اصول اور سیاست کا اخلاقی محور جھلکتا ہے۔
یہ کتاب اپنی روشنی کسی ایک سمت میں نہیں ڈالتی، بلکہ ہر سمت کو منور کرتی ہے۔ اس کے صفحات میں زندگی کا کوئی موڑ ایسا نہیں جہاں وہ خاموش ہو؛ وہ ہر مقام پر رہنمائی کرتی ہے، جیسے کسی اندھیری راہ میں روشنی کا ستون، یا کسی بھٹکے قافلے کے لئے قطب نما۔
وہ کہتی ہے: ”اور بیشک اس میں عقل و بصیرت والوں کے لئے (بڑی) رہنمائی ہے۔“ (النور: ۴۴) یعنی بصیرت کی راہ صرف ان کے لئے کھلتی ہے جو غور و فکر کی روشنی میں دیکھنے کے عادی ہوں۔ یہاں ایمان اندھی تقلید کا نہیں، بیدار شعور کا نام ہے۔
جس کے دل میں سوال کی چنگاری ہو، اسی کے سامنے اس کتاب کی آیات زندہ جواب بن کر ابھرتی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ جن دلوں نے پہلی بار اس نور کو قبول کیا، وہی لوگ تاریخ کے افق پر کردار کی چمکتی ہوئی کہکشاں بن گئے۔ وہی اصحاب جنہوں نے اسے اپنا دستورِ عمل بنایا۔ میدانِ جنگ میں حکمت کے شہسوار، تجارت میں دیانت کے معیار، اور حکومت میں عدل کے مینار بن گئے۔ ان کی زندگیاں آج بھی اس سچائی کی گواہ ہیں کہ جس نے اس کتاب کو سمجھ کر اپنایا، اس نے صرف اپنی تقدیر نہیں، پوری دنیا کی فکری سمت بدل دی۔
قرآن دراصل زندگی کی رہنمائی کی کتاب ہے اور اس سے ہدایت حاصل کرنا ہی ایک زندہ اور بیدار قوم کی علامت ہے۔ قرآن کی تلاوت محض روحانیت کی سیڑھی نہیں، بلکہ شعورِ انسانی کو بیدار کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان متقی بن جائے، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ متفکر، باشعور اور باعمل مومن بنے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ ایمان جامد نہیں رہتا وہ مشاہدے، تجربے اور تفکر سے تازگی پاتا ہے۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن سے رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ مغربی نظامِ تعلیم کی چمک، سائنسی علوم کی کشش اور مادّی کامیابیوں کی دوڑ نے ان کے ذہنوں کو الجھا دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایمان ایک عقیدے سے زیادہ، ایک ”رسم“ بن کر رہ گیا ہے۔یہ دوراہا دراصل غلط فہمی کی پیداوار ہے، قرآن کو محض ایک مذہبی کتاب سمجھ لیا گیا، حالانکہ وہ کائنات کا آئینہ ہے۔قرآن انسان کو کائنات کے اسرار پر غور کی دعوت دیتا ہے، اس کے مظاہر میں نشانیوں کی تلاش سکھاتا ہے، اور انسان کے اندر یہ احساس جگاتا ہے کہ علم صرف عبادت گاہ میں نہیں بلکہ فضا، دریا، کہکشاں اور زمین کے ذروں میں بکھرا ہوا ہے۔ در حقیقت، قرآن ”کلامِ الٰہی“ ہے، اور کائنات اس کے الفاظ کی زندہ تفسیر۔یہی وہ نقطہ ہے جس سے انسان سمجھتا ہے کہ سائنس دراصل غور و فکر کے اسی قرآنی حکم کا تسلسل ہے۔ کائنات کے نظام میں غور کرنا، نتائج اخذ کرنا، اور ان سے انسانیت کی خدمت کے وسائل پیدا کرنا یہی وہ عمل ہے جو قرآن کی دعوت کو عملی صورت دیتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اجمال ہے اور سائنس اس کی تفصیل؛ قرآن ہدایت دیتا ہے، اور سائنس اس ہدایت کی تائید کرتی ہے۔ آج اسی شعوری بیداری کی ضرورت ہے کہ علم اگر ایمان سے جڑ جائے تو تحقیق عبادت بن جاتی ہے، اور عقل اگر وحی کے تابع ہو تو وہ انسان کو زمین کا خلیفہ بنا دیتی ہے۔n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK