Inquilab Logo

کیا ٹرمپ پھرامریکہ کے صدر بن سکتے ہیں؟

Updated: March 12, 2024, 11:58 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

ڈونالڈ ٹرمپ کا صدر بننا اب تقریباً طے سمجھا جا رہا ہے۔ جوبائیڈن نے اپنے دور حکومت میں اتنی بڑی غلطیاں کی ہیں کہ ان کا دوبارہ صدر بننا اب سر دردمعلوم ہونے لگا ہے۔

Donald Trump. Photo: INN
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر : آئی این این

امریکی سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ نے بیک رائے ہوکر فیصلہ سنایا ہے کہ ہر چند کہ ڈونالڈٹرمپ پر ٹیکس چوری کے نہایت سنگین الزامات ہیں لیکن امریکی آئین اس وقت تک کسی کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روک سکتا جب تک کہ کسی مجرم کو الزامات ثابت ہونے تک سزا نہیں مل جاتی۔ اب یہ الزامات کتنے درست ہیں اور کتنے نہیں اس بات کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے جن کے لئے امریکی آئین کہتا ہے کہ یہ حق عوام اور صرف عوام کو حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکہ کے انتخابات کے بارے میں جو سروے مہیا ہوئے ہیں، ان کے مطابق عوام میں ڈونالڈٹرمپ کی مقبولیت کی حد ۴۸ ؍فیصد ہے جب کہ ان کے حریف جو بائیڈن کی مقبولیت ۴۳؍ فیصد ہے، گویا اس وقت ٹرمپ زیادہ مقبول ہیں۔
 ٹرمپ کا نام سامنے آتےہی سب سے پہلے ویزر اعظم مودی کا وہ جملہ یاد آنے لگتا ہے کہ اب کی بار ٹرمپ سرکار۔ ہر چند کہ یہ جملہ ان کا ہی تھالیکن یہ وزیر اعظم کی سیاسی دانش مندی نہیں تھی بلکہ عوام اسے مذاق اور ایک عامیانہ مذاق سمجھتے ہیں۔ چونکہ ٹرمپ نے یہ جملہ سن بھی لیا تھا اور اس کے معنی جاننے کے بعد اس کی تعریف بھی کی تھی، بھلے ہی ٹرمپ کو یہ جملہ بھلا لگا ہو لیکن اس خوشامدانہ جملے کے باجود ٹرمپ نے ہندوستان کو وہ توجہ نہیں دی جس کا وزیر اعظم مودی مستحق سمجھتے تھے۔ 
 امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ابھی کافی وقت ہے، شیڈول کے مطابق یہ الیکشن نومبر میں ہوںگے، گویا ابھی کئی ماہ باقی پڑے ہیں لیکن ایک بات طے ہےکہ ٹرمپ جنگ پسند بالکل نہیں ہیں، سچ پوچھئے تو یورپی ممالک خصوصاً نیٹو سے ان کا جھگڑا اسی بات پر ہوا تھا، یورپی ممالک یہ چاہتے تھے کہ امریکہ نیٹو کو دیا جانے والا فنڈ بند نہ کرے۔ ٹرمپ نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ کسی ایسےجنگی پہلو کی طرف راغب ہو جس کا آخری نتیجہ جنگ پر ختم ہوتا ہے چاہے وہ جنگ خود شروع کی جائے یا مزید فنڈاکٹھا کرنے کے لئے شروع کی جائے۔ یورپی ممالک سے نیٹو کی فنڈنگ کا معاملہ بہت دنوں تک چلا، ٹرمپ بالکل نہیں جھکے۔ کسی طرح سے یہ جھگڑا ختم ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہےکہ اگر ٹرمپ پچھلی بار بھی جیت جاتے تو شاید یہ جنگ نہیں ہوتی جو روس اور یوکرین میں ہوئی ہے۔ روس یہ نہیں چاہتا تھا کہ نیٹو کی فوجیں اس کی سرحدوں تک آئیں لیکن یوکرین والے نیٹو میں جانا چاہتے تھے۔ اس جنگ میں امریکہ نے بھی امداد کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں روس کے خلاف امریکہ نے لاکھوں بلکہ اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کئے تھے لیکن اس جنگ کا نتیجہ آج تک نہیں نکلا۔ امریکہ کی فوجی امداد سے روس کو کچھ وقت تک تو نقصان اٹھانا پڑا لیکن چونکہ روس کے پاس گیس اور تیل کی دولت بھی تھی، اس لئے اس نے یورپی ممالک کو بلیک میل کر لیا۔
 اسرائیل اور فلسطین کے معاملہ میں ٹرمپ نے ابھی تک زبان نہیں کھولی ہے۔ لیکن انہوں نے کچھ ایسا بھی نہیں کہا ہے جس سے یہ اندازہ ہو کہ وہ اس معاملہ میں اسرائیل کی طرف داری کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فلسطین کے طرفدار ہیں ، ظاہر ہے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتالیکن وہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ کے دوست اور مددگار بھی اس وقت اس معاملہ میں بہت تذبذب کا شکار ہیں، پہلے جب ٹرمپ نے نام نہاد ’ابراہم اکورڈس‘ (ابراہیمی معاہدہ)کی بات کی تھی تو مشرق وسطیٰ کے علاوہ کئی دوسرے مسلم ممالک بھی اس بہلاوے میں آ گئے تھے، اس میں افریقہ کے کچھ مسلم ممالک بھی تھے، اسی نام نہاد ’ابراہم اکورڈس‘ کے مطابق سعودی عرب کو یہ جرأت ہوئی تھی کہ وہ اسرائیلی ہوائی جہازوں کو سعودی فضائی روٹ استعمال کرنے کی اجات دے، ایسا پہلے نہ ہوا تھا نہ ہو سکتا تھا۔ سعودی عرب اپنی اسلامی شناخت اور اس شناخت کے لئے معروف و مقبولیت کا قائل تھا اور کسی طرح اس پوزیشن کو ختم نہیں کرناچاہتا تھا، لیکن محمد بن سلمان نے خطرہ مول لیا تھا۔ انہوں نے اس سودے کی طرف سعودیوں کو راضی کرنے کے لئے کئی ٹی وی ڈراموں اور کئی میوزیکل تہوار بھی بنوائے تھے، لیکن سعودی عوام اپنے حکمراں کے معاملات جان گئے تھے، ان میں غصہ ضرور تھا لیکن یہ غصہ ظاہر نہیں ہوا تھا۔ اب شاید ایسا کچھ ہوا تو یہ غصہ سامنے بھی آجائے گا، جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیںکہ سوشل میڈیا نے عوام کی سیاسی نالج میں کافی اضافہ کیا ہے۔ خلیجی ممالک میں بھی اسرائیل اور خاص طور پر غزہ جنگ کے بعد حالت بہت بدل چکے ہیں، اس کی ایک وجہ ان تمام ممالک میں امریکہ کا بڑھتا ہوا اثر بھی ہے۔ 
 یہ بھی یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو کی فوجوں سے واپسی کا معاملہ بارک اوبامہ کے وقت ہوا تھا، لیکن اس کے بعد جب ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے اس سمجھوتے کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ شام اور عراق سے امریکی فوجوں کی بڑی واپسی بھی ٹرمپ کے زمانے ہی میں ہوئی تھی۔ یہ سب کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ بہت امن پسند ہیں۔ ان کی ذہنیت اپنی جگہ ، لیکن جو بات سامنے ہے اس سے تو روگردانی نہیں ہو سکتی، اس لئے یہ سمجھنا کہ ٹرمپ کے آنے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی ہوگی ، بعید از قیاس ہے۔ ان کا صدر بننا اب تقریباً طے سمجھا جا رہا ہے۔ جو بائیڈن نے اپنے دور حکومت میں اتنی بڑی غلطیاں کی ہیں کہ ان کا دوبارہ صدر بننا اب سر دردمعلوم ہونے لگا ہے۔جب پچھلے الیکشن میں انہوں نے ٹرمپ کو ہرایا تھا تو ساری دنیا نے اس کا خیرمقدم کیا تھا، لیکن جو بائیڈن اس خیر مقدم کی فضا کو زیادہ دنوں تک قائم نہیں رکھ سکے۔ 
دیگر پالیسیوں میں کوئی بڑا فرق پڑے گا یہ سوچنا فضول ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حاکم کا ایک اپنا طرز عمل بلکہ نفس عمل ہوتا ہے۔ ٹرمپ ہم کو ہر محاذ پر کچھ قدم پیچھے لیتے دکھائی دیتے ہیں، ایک بات یہ بھی ہے کہ ٹرمپ روس کے سخت مخالف ہیں ان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں روس کی پذیرائی سے خوش نہیں ہیں، لیکن اسی کے ساتھ وہ روس کی مخالفت میں اتنی دور نہیں جانا چاہتے جہاں سے واپسی نا ممکن ہو۔ ٹرمپ چین سے بھی سخت نفرت کرتے ہیں، ان کو یہ بالکل پسند نہیں کہ چین اقتصادی طور پر امریکہ سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن چین کی مخالفت میں بھی وہ بہت دور نہیں جاتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت امریکہ کی اقتصادیات بھی چینی سرمائے سے وابستہ ہیں، چین نے امریکہ کے اتنے زیادہ بانڈس خرید رکھے ہیں کہ امریکہ تقریباً چین کا مقروض ہو چکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK