Inquilab Logo

متھرا کےسہ رخی مقابلہ میں بی جےپی سے کسانوں کی ناراضگی ہیمامالنی کو مہنگی پڑسکتی ہے

Updated: April 27, 2024, 12:35 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

مگر آر ایل ڈی کا ساتھ ان کیلئے فائدہ مند بھی ثابت ہوسکتا ہے، نتائج ہی یہ بتائیں گے کہ جاٹ سماج جو بی جے پی سے خوش نہیں ہے، نے کیا جینت چودھری کی اپیل پر ہیمامالنی کے حق میں ووٹنگ کی ہے۔

Hema Malini. Photo: INN
ہیما مالنی۔ تصویر : آئی این این

ہیمامالنی بی جےپی کے اُن لیڈروں   میں  سے ہیں  جو ۷۵؍ سال سے زیادہ عمر کے باوجود لوک سبھا کا ٹکٹ پا لینے میں  کامیاب ہوگئیں حالانکہ اسی عمر کا حوالہ دیکر مودی نے اڈوانی کو ’’مارک درشک منڈل‘‘ میں ڈال دیاتھا۔ 
وہ متھرا سے لگاتار تیسری بار بی جےپی کی امیدوار ہیں  اور ہیٹ ٹرک لگانے کی متمنی بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں  کانگریس نے او بی سی سماج سے تعلق رکھنے والے ۳۶؍ سالہ نوجوان اور تعلیم یافتہ ( ایم بی اے ) مکیش دھنگر کو اور بی ایس پی نے بی جےپی کے ہی سابق لیڈر چودھری سریش سنگھ کو میدان میں اتارا ہے جو نہ صرف جاٹ ہیں  بلکہ پُرامید ہیں  کہ آر ایل ڈی جو اب بی جےپی کے ساتھ ہے، کے لیڈرجینت چودھری سے جاٹ سماج کی ناراضگی کا انہیں  فائدہ ملے گا۔ سریش سنگھ سابق آئی آر ایس افسر اور جاڑ سماج میں  خاطر خواہ اثر رکھنے والے لیڈروں میں سے ہیں۔ 
 متھرا سے تینوں امیدواروں کو نظر میں رکھتے ہوئے یہاں ووٹروں  پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ متھرا لوک سبھا حلقے میں ووٹروں  کی تعداد ۱۹؍ لاکھ ۳۰؍ ہزار ہے۔ یہاں  اکثریت جاٹ ووٹروں  کی ہے جن کی تعداد ۵؍ لاکھ کے آس پاس ہے۔ دوسرے نمبر پر راجپوت اور براہمن ہیں  جو ایک اندازے کے مطابق ۳۔ ۳؍ لاکھ ہیں۔ ان کے علاوہ جاٹو سماج کے ۲؍ لاکھ ووٹر جبکہ ایک لاکھ ۶۰؍ ہزار مسلم ووٹر ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں  ۵۳؍ فیصد اور ۲۰۱۹ء میں۶۰؍ فیصد ووٹ حاصل کر کے لوک سبھا پہنچنے والی ہیما مالنی کو حالانکہ کانگریس کی ’’برج واسی بمقابلہ پرواسی‘‘ کے عنوان سےباہری بمقابلہ مقامی مہم کا سامنا رہا اور بی ایس پی کے امیدوار سریش سنگھ بھی انہیں ’’بمبئی والی سانسدــ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے رہے ہیں مگر اس بار انہیں آر ایل ڈی کا بھی ساتھ مل گیا ہے۔ اسی ساتھ کی بنیاد پر شاید وہ ۶؍ سے ۷؍ لاکھ ووٹوں  کے فرق سے جیتنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: منی پور میں سیکوریٹی فورسیز کی موجودگی میں بی جے پی پر جبراً ووٹ ڈلوانے کا الزام

ہیما مالنی جینت چودھری کے ساتھ آجانے سے جاٹ ووٹوں  کے بھی ملنے کی امید ہوگی مگر یہ بھی حقیقت ہےکہ ۲۰۱۴ء میں انہوں نے یہ سیٹ جینت چودھری سے ہی انہیں  ۴؍ لاکھ ۳۰؍ ہزار ووٹوں  سے شکست دے کر جیتی تھی، اس لحاظ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جاٹ لینڈ ہونے کے باوجود جاٹ ووٹوں  پر آر ایل ڈی کی کتنی پکڑ ہے۔ خود جینت چودھری ۲؍ لاکھ ۴۳؍ ہزار ووٹوں  پر سمٹ گئے تھے۔ ۲۰۱۹ء میں بھی ہیما مالنی نے ۳؍ لاکھ ووٹوں  سے آر ایل ڈی کے ہی امیدوار کنور نریندر سنگھ کو ہرایا تھا۔ مگر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئےہے کہ ۲۰۱۴ء میں  ووٹنگ غیر معمولی مودی لہر کے اثر میں ہوئی تھی اور ۲۰۱۹ء میں  پلوامہ سانحہ نے بڑا رول ادا کیاتھا۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ کسان، جاٹ اور راجپوت بی جےپی نے نارض ہیں۔ ہیما مالنی ہیٹ ٹرک لگانے کی متمنی تو ہیں  مگر انتخابی مہم میں  ان کے چہرے پرمایوسی کے آثار واضح طور پر محسوس کئے گئے۔ ذات برادری کی سیاست میں وہ بری طرح  پچھڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں، جینت چودھری کی تائید سے انہیں جس جاٹ ووٹ بینک کا سہارا ہے اس پر بی ایس پی کے سریش سنگھ بڑے دعویدار ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کے امیدوار مکیش دھنگر نہ صرف سوا لاکھ کے قریب دھنگر سماج کے ووٹوں  کے دعویدار ہیں  بلکہ ان کی نظر  دیگر او بی سی طبقات اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلم ووٹروں پر بھی ہے۔ ہیمامالنی کی پریشانی صرف یہی نہیں  ہے کہ جاٹ بی جے پی سے ناراض ہیں اور متبادل کے طور پر ان کے سامنے سریش سنگھ موجود ہیں بلکہ اس پارلیمانی سیٹ پر دوسرے سب سے بڑے ووٹ بینک راجپوتوں کی بی جےپی سے ناراضگی بھی ہیما مالنی کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ 
مجموعی طور پر متھرا میں  اس بار ہیما مالنی کیلئے مقابلہ سخت ہے۔ ۲۰۱۹ء میں سماجوادی اور بی ایس پی کے اتحاد کی وجہ سے بی ایس پی کا امیدوار نہیں تھا اور سیاسی پنڈتوں  کے مطابق’ہاتھی‘ نہ دیکھ کر بی ایس پی کے ووٹروں نے ’کنول‘ کا بٹن دبایاتھا۔ اب جبکہ ’ہاتھی ‘ موجودہے، ہیمامالنی کو ۲۰۱۹ء میں ملنے والے بہت سے ووٹ کم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح متھرا کی سیٹ جہاں  جمعہ کو ووٹروں  نے اپنافیصلہ ووٹنگ مشینوں میں محفوظ کردیاہے، کانگریس، بی ایس پی اور بی جےپی تینوں  مقابلے میں ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK