Inquilab Logo Happiest Places to Work

ذات پرمبنی مردم شماری: حکومت کی نیت فلاحی ہے یا سیاسی؟

Updated: May 04, 2025, 2:41 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان حکومت کا’ یوٹرن‘ ہےاور فرقہ وارانہ مزاج والی حکومت کیلئے اوبی سی ہندواور اوبی سی مسلمان میں فرق نہ کرنا بہت مشکل ہے

Now the gap between rich and poor is also increasing rapidly. Photo: INN.
اب امیر وغریب کا فرق بھی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ذات پر مبنی شماری پر بالآخر اب حکومت بھی متفق ہوگئی اور اگلی مردم شماری میں اسےکرانے کا اعلان کردیا ہے۔ اپوزیشن اس پر خوش ہے اوراس کاسہرہ راہل گاندھی کے سر باندھ رہا ہےجبکہ جے ڈی یواس کا کریڈٹ نتیش کمار کو دے رہی ہے۔ ذات پرمبنی مردم شماری ملک کیلئے کیسے اور کتنی ثمر آورثابت ہوسکتی ہےیہ تو وقت بتائے گا لیکن فی الحال جو بات کہی جارہی ہےاس پر غورکرنا اہم ہے۔ وہ یہ کہ بہار اسمبلی الیکشن سے قبل جو اس سال ہونے والے ہیں، حکومت کوآخر ذات پر مبنی مردم شماری کا خیال کیو ں آیا؟راہل گاندھی کافی وقت سے اس کا مطالبہ کررہے ہیں، کانگریس مجموعی طورپرکافی عرصے سے یہ چاہ رہی ہےکہ اس طرز پر مردم شماری ہو لیکن اب حکومت اس پر عمل کرنے جارہی ہےتوعین بہاراسمبلی انتخابات کے وقت۔ اس پر کسی خاص تبصرہ کی حالانکہ ضرورت نہیں ہےلیکن حکومت کی نیت واضح طورپر سمجھی جاسکتی ہےکہ الیکشن کے موقع پر وہ خود کو عوام کے زیادہ قریب دکھانا چاہتی ہے۔ یہ کہ وہ ہر طبقے کے قریب ہے، بالخصوص پسماندہ ذاتوں کے قریب جن کی اقتدارمیں شراکت بقول راہل گاندھی صرف ۲؍ فیصد ہےجبکہ ملک میں ان کی آبادی ۷۰؍ فیصد سے زائد ہے (۴۵؍ فیصد اوبی سی، ۱۶؍ فیصد ایس سی اور ۸؍ فیصد ایس ٹی )۔ اس ۴۵؍ فیصد اوبی سی میں بھی ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ پھراس میں بھی معاشی طور پر کمزور طبقے کا تناسب الگ ہے۔ 
مودی حکومت نے ذات شماری کا جوفیصلہ کیا ہے، ظاہر ہے ان سب باتوں کو مد نظررکھتے ہوئے کیا ہے اور بالخصوص ایک ایسی ریاست میں کیا ہےجہاں کے وزیر اعلیٰ پہلے ہی اس بنیاد پرمردم شماری کرا چکے ہیں اوراس کا ڈیٹا بھی ظاہر کرچکے ہیں۔ اسلئے اس بنیاد پر صرف یہ کہنا کہ وہ اس کے ذریعے اہل بہار کو راغب یا متوجہ کرنا چاہتے ہیں ، پوری طرح صحیح بات نہیں ہو گی۔ اہل بہار کو آپ کے اعلان کی ضرورت ہی کیاہے؟ ہاں یہ ضرور ہےکہ اس کے ذریعے اس کا مقصد اپوزیشن کو ایک بڑے موضوع سے محروم کرنا ہو۔ یہ اعلان کرکے اس نے ایسا کر بھی دیا ہے۔ پھر یہ پہلو اس سے زیادہ اہم ہےکہ صرف ذات پر مبنی شماری کرادینا کوئی کارنامہ نہیں ہے، اس بنیاد پرترقیاتی اسکیمیں متعار ف کرنا اورانہیں سماج کے ہر طبقے تک پہنچانا اورپھر اس سے بھی بڑھ کرپسماندہ اور کمزور طبقات کی اقتدار میں شراکت کو یقینی بنانازیادہ بڑا کام ہے۔ یہ کام ایک مکمل سماجی نظم کے تحت ہوتا ہےاور جب ہوتا ہےتو حکومت کوچاروناچار اس نظم کے تحت ہی چلنا ہوتا ہے، پھر وہ اپنے سیاسی اقدام کے ذریعے اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی اورکسی سیاسی حربے کے ذریعےاسے متاثر بھی نہیں کر سکتی۔ (اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہےکہ کسی حکومتی نظام میں اقلیتیں مجموعی طورپر کمزوراور پسماندہ رہ سکتی ہیں لیکن یہی حکومتی نظام اے پی جے عبدالکلام کو صدر، حامد انصاری کو نائب صدراوردرو پدی مرموکو صدر بننے سے نہیں روک سکتا )۔ حکومت نے جو اعلان کیا ہے، اس کی بنیاد ابھی واضح نہیں ہے، اس کی نیت اگر درست ہے اور اس کے پیش نظر فلاح ہے تو اعلان کا ہر صورت میں خیرمقدم اور استقبال ہے لیکن اگر اس کا مقصدسیاسی ہےتو اسے مذمت کا سامنا بہر حا ل کرنا پڑےگا۔ 
ذات پر مبنی سروے یا مردم شماری حکومت کا یوٹرن ہے کیونکہ وہ پہلے اس کیلئے تیار نہیں تھی اوراس کادعویٰ تھا کہ وہ عوام کو ذات پات کی بنیاد پربانٹنا نہیں چاہتی اور دوسری بات یہ کہ اس کی سیاست زیادہ تر فرقہ واریت کے ارد گرد گھومتی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن پسماندہ اورمحروم طبقات کا درست تناسب معلوم کرنے کیلئے یہ مطالبہ کر رہا تھا۔ حکومت اب یو ٹرن لے چکی ہے۔ یعنی وہ ذات پر مبنی مردم شماری کرنے جارہی ہےجس میں اوبی سی میں تمام  مذاہب کے لوگوں کو شمار کرے گی اور اسے کرنا پڑے گا، اب کیا اس طبقے کیلئےوہ مذاہب کی تفریق کرکے پالیسیاں بنائے گی ؟ اگر بی جےپی حکومت یہ سروےکرے گی تو اپنے فرقہ وارانہ مزاج کے مطابق وہ ہندواوبی سی اورمسلم اوبی سی میں فرق کیسے کرےگی ؟کیا ایسا ہوسکتا ہےکہ کوئی اسکیم وہ اوبی سی ہندوؤں کیلئے جاری کرےاور کوئی اسکیم اوبی سی مسلمانوں کیلئے شروع کرے ؟ پھر’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسے نعرے کا کیاہوگا ؟ 
اپوزیشن نے حالیہ جن دومعاملو ں میں حکومت کے اقدام سے اتفاق کیا ہے ان میں پہلا پہلگام حملے کے بعد حکومت کا دہشت گرد ی اور پاکستان کے خلاف موقف ہے اور دوسرا یہی ذات پر مبنی مردم شماری کا ہےلیکن حکومت کا سیاسی مزاج دیکھئے کہ اس کے ایک لیڈر نے ’دی پرنٹ ‘ سےگفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے کو اپوزیشن پر ہی ’سرجیکل اسٹرائیک ‘ قرار دے دیا۔ 
پہلی بات تو ’سرجیکل اسٹرائیک‘ ایک حساس موضوع اور ایک حساس اصطلاح ہے اور داخلی سیاست میں اپوزیشن کیلئے اس کا استعمال کرنا برسراقتدار پارٹی کے ایک لیڈرکو کتنا زیب دیتا ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ ملک ابھی پہلگام حملے سےغم سے نکل بھی نہیں سکا ہے۔ 
حکومت یہ اعتراف کیوں نہیں کرتی کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا اپوزیشن کا مطالبہ بجا تھا اوربہار میں ۲۰۲۲ء میں مہا گٹھ بندھن حکومت نے نتیش کمارکی قیادت میں ۲۰۲۲ء میں اس بنیاد پرشماری کرا کرایک انقلابی اقدام کیا تھا۔ حکومت نے اب جو فیصلہ کیا ہے، اس کی بنیاد موجود ہے لیکن وہ اب اسے اپنے ایک بڑے ا قدام کے طورپر پیش کرے گی، جس طرح سابقہ کانگریس حکومت کے پروجیکٹوں اورپالیسیوں کو آگے بڑھاکران کا پورا کریڈٹ خود لیتی آئی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ ۷۰؍ سال میں ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ 
اپوزیشن نے حکومت کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے لیکن اس پر وہ تنقیدی نظر بھی رکھتی ہے۔ راہل گاندھی ایک پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکے ہیں کہ’’ حکومت کا دل کیسے بدل گیا؟ جبکہ مودی جی توکہتے ہیں کہ ملک میں صرف ۴؍ ذاتیں ہیں (خواتین، نوجوان، کسان اور غریب)۔ ‘‘یہ بلا شبہ مرکزی حکومت کا اپنے سابقہ موقف سے دست برداری کا ثبوت ہےلیکن اسے خوش کن پہلو سے دیکھا جائے توکہا جاسکتا ہے کہ حکومت اس کیلئے رضا مندتوہوئی ہے۔ اس نے اس بات پر آمادگی تو ظاہر کی ہےکہ ملک میں مختلف ذاتوں اورطبقات کا صحیح تناسب معلوم کیاجائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہےکہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن میں اپوزیشن اور عوام آج حکومت سے اپنی بات منواسکتے ہیں۔ یہ اعلان یوں تو حکومت کا ہے لیکن اس میں کامیابی اپوزیشن کی ہے۔ اب عوامی آبادی کاوہ تناسب نہیں رہ گیا ہےجو دس بیس سال پہلے تھا۔ اب جہاں ترقیاتی اسکیمیں اور پروجیکٹ بڑھتے جارہے ہیں وہیں امیر غریب کا فرق بھی تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ معاشی عدم مساوات اب بھی سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ 
ان بنیادوں پراگر عوام کے مختلف طبقات اور ذاتوں کا درست تناسب معلوم کرکے انہیں مرکزی دھارے سے جوڑنےکیلئے کوئی قدم اٹھایاجارہا ہے تو اس کا نہ صرف سیاسی بلکہ عوامی سطح پر بھی ساتھ دیا جائے گا لیکن اس میں اگر کہیں سے بھی فرقہ واریت کی آمیزش ہوجائے تو معاملات پھر بگڑنے لگیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK