Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدقہ :فضیلت، اہمیت، آداب

Updated: September 01, 2023, 12:45 PM IST | Professor Khalid Iqbal Jilani | Mumbai

اسلامی تعلیمات و تصورات کے سلسلے میں اگرہم اپنے طرزِفکر اور عمل کا ایمان و علم کی روشنی میں احتساب کریں تویہ حقیقت ہمارا منہ چڑاتی ہے کہ ہم نے زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات و تصورات کو نہ صرف بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ اِن کی روح کو بھی یکسر فراموش ونظر انداز کردیا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

اسلامی تعلیمات و تصورات کے سلسلے میں اگرہم اپنے طرزِفکر اور عمل کا ایمان و علم کی روشنی میں احتساب کریں تویہ حقیقت ہمارا منہ چڑاتی ہے کہ ہم نے زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات و تصورات کو نہ صرف بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ اِن کی روح کو بھی یکسر فراموش ونظر انداز کردیا ہے۔ ایسی ہی ایک چیز’’صدقہ‘‘ بھی ہے جس کے ادائیگی کے طریقے کو ہم نے توہّمات کا مجموعہ بنادیا ہے۔ 
  قرآن و حدیث میں صدقہ کی بڑی فضیلت ، اہمیت اور ترغیب آئی ہے ۔ رب العالمین نے اپنے محبوبؐ کو حکم دیا کہ ’’(اے بنیؐ) اِن کے مال و دولت میں سے صدقہ لے کر انہیں اِس سے ظاہر میں پاک اوراِن کے باطن کا تزکیہ کریں ۔‘‘
لغت عرب کی روسے صدقہ کا لفظ ’’صدق‘‘ (ص -د-ق) سے ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ دل کی گہرائی، اخلاص، پوری سچائی کے ساتھ بہ رضاو رغبت اپنے پسندیدہ اور پاکیزہ مال کی ملکیت سے اللہ کی رضا کے لئے اپنے بھائی کے حق میں دستبردار ہو جانا۔ صدقے کے اس حقیقی معنی سے اس غلط تصور کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ جو چیز ’’صدقہ‘‘ میں دی جارہی ہے وہ کوئی بہت ناپاک اور نجس چیز ہے یا اس کے اندر بلائیں لپٹ یا چمٹ گئی ہیں یا وہ بلاؤں سے بھری ہوتی ہے۔ یہ سارے تصورات فضول اور لغو ہیں ۔ بلکہ صدقہ میں تو جو مال دیا جارہا ہے وہ گویا اللہ کو دیا جارہا ہے اور جو چیز اللہ کو دی جائے وہ یقیناً پاکیزہ ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ کی بہت سی احادیث سے صدقات کی صورت میں زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ جِن کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ :
lاللہ نے(اہلِ ایمان) کے مال پر صدقہ فرض کیا ہے، جو اِن کے مالداروں سے لیا جائے گا اور اُن کے غرباء کو لوٹادیا جائے گا۔
جس مال سے صدقہ نہ نکالا جائے تو وہ اس مال کو تباہ کرکے چھوڑے گا۔
 صدقہ اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دفع کرتا ہے۔ 
آدمی کے ہر جوڑپرصدقہ واجب ہے۔
برائی سے بچنا بھی صدقہ ہے ۔
تکلیف دہ چیز کا راستے سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے اور بشاش چہرے کے ساتھ اپنے بھائی سے ملاقات کرنا اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی بھر دینا بھی صدقہ ہے۔
اِن آیات و احایث کا خلاصہ پیش کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ صدقہ کتنی فضیلت و اہمیت کی حامل عبادت ہے مگر دین سے ہماری دوریاور تعلیماتِ قرآن و حدیث سے لا علمی نے اِس عبادت کو جو خالص اللہ کے لئے ہے، شرک اور توہّم پرستی سے آلودہ کردیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اگر چہ وہ صاحبِ حیثیت نہ بھی ہوں ، صدقہ کرتے ضرور ہیں مگر اِس کے ادا کرنے میں غلط سوچ، جاہلانہ رسم و رواج اورمشرکانہ عقائد کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایک عبادت جو اخلاص اور للہیت سے تعبیر ہے، کو اپنی جہالت کے سبب ضائع کردیتے ہیں اور اس اجر و ثواب سے محروم رہتے ہیں جو اللہ نے اس کا مقرر کیا ہے۔
 صدقہ میں آدمی پورے اخلاص اور دل کی سچائی کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اس کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے بہترین اور پسندیدہ مال سے اپنے ضرورت مند بھائی کی ضرورت پوری کردے۔ قرآن میں مصارف زکوٰۃ و صدقات کو سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۶۰؍ میں بڑی صراحت اور انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ۔ارشاد ہوا :
’’بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
 قرآن نے جن آٹھ مصارف صدقات کو بیان کیا ہے،ان کی مختصر تفصیل یہ ہے:
(۱) فقیر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو، مگر ان کی ضرورت کے لئے ناکافی ہو۔ وہ تنگ دستی میں گزربسر کرتے ہوں اور اپنی’’سفید پوشی‘‘ کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے سامنے دست سوال درازنہ کرتے ہوں ۔
(۲)مساکین: یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے تن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو۔
(۳)عاملین: اِس سے مراد محکمۂ زکوٰۃ کے ملازمین ہیں جو زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور حساب و کتاب پہ متعین ہوں ، اِن کی تنخواہیں زکوٰۃ و صدقات کی مد سے دی جائیں گی۔
(۴)تالیف ِ قلب: وہ نو مسلم جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اپنے خاندان قبیلہ سے الگ کردیا گیا ہو اور اس کا روزگار تباہ ہوگیا یا وہ لوگ جن کو اسلام کی حمایت یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لئے روپیہ دینے کی ضرورت ہو۔
(۵)غلام:جو لوگ غلامی سے آزادی چاہتے ہوں ، انہیں زکوٰۃ و صدقات کے مال سے آزاد کرایا جاسکتا ہے۔
(۶)قرضدار: جو لوگ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوں اور ادائیگی قرض کی کوئی صورت نہ پاتے ہوں تو ا نہیں زکوٰۃ وصدقات کی مد سے قرض کی ادائیگی میں مدد دی جاسکتی ہے۔
(۷)فی سبیل اللہ: تمام نیک کاموں پر ، جہاد، دین کی تبلیغ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور اِن کاموں میں مصروف افراد کی نشوونما کے لئے۔
 (۸)مسافر: مسافر کی بھی صدقہ اور زکوٰۃ سے مدد کی جاسکتی ہے ،چاہے اس کے پاس اپنے وطن میں کتنا ہی مال کیوں نہ ہو۔لیکن اگر حالت ِ مسافرت میں وہ محتاج یا ضرورت مند ہو تواُس کی مدد صدقہ و زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK