Inquilab Logo

ادب ِ اطفال کو بڑے ادیبوں کا انتظار ہے

Updated: October 04, 2020, 4:40 AM IST | Ishrat Moin Seema | Berlin

بیشتر ممالک میں ادب اطفال محض تفریح طبع اور بچوں کی وقت گزاری کا ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اردو ادب میں بچوں کا ادب خالصتاً بچوں کی ذہنی تربیت اور معاشرتی اقدار کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔

Children in Library - Pic : MidDay
بچے لائبریری میں ۔ تصویر : مڈ ڈے

 بیشتر ممالک میں ادب اطفال محض تفریح طبع اور بچوں کی وقت گزاری کا ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن میں  وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اردو ادب میں بچوں کا ادب خالصتاً بچوں کی ذہنی تربیت اور معاشرتی اقدار کو قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے تخلیق کیا جاتا رہا ہے۔ 
اردو زبان میں بچوں کےادب کا جائزہ لیں تو اس کے آثار ہمیں ’’خالق باری‘‘ جیسی کتابوں کے سلسلے سے شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے  لیکن اس ادب میں  اخلاقیات اورادب کی جگہ ہمیں لغت، ذخیرۂ الفاظ اور زبان و بیان سکھانے کی کوشش زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے بعد جو دوسرا دور بچوں کے ادب کے حوالے سے نمایاں ہے وہ ہمیں غالب کے قادر نامے اور نظیر اکبر آبادی کی شاعری  کے زمانے میں نظر آتاہے ۔ اس کا اصل آغاز  ۱۸۵۷ء کی ناکامی اور سرسید احمدخاں کی اصلاحی تحریک سے ہوا۔ یہاں ادب ِ اطفال کے ذریعہ بالغوںمیں خود شناسی اور جذبہ حریت کو ابھارنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہی سلسلہ ہمیں آج تک بچوں کے ادب کی تخلیق کا بنیادی ماخذ دکھائی دیتا ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک کی حقیقی دولت اور سرمایہ قوم کےبچے ہی ہوتے ہیں۔ وہ بچپن میں جس قسم کی تربیت و نشوونما پاتے ہیں اسی تربیت کا اثر وہ  اپنےملک کے مستقبل پر ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں بچوں کا ادب  ان کی ذہنی اور جذباتی اٹھان پر اپنے گہرے اثرات ثبت کرتا ہے۔ بچوں کی ذہنی ترقی اور مکمل اٹھان کیلئے نصابی تعلیم کے ساتھ سب سے زیادہ اثر انگیزچیز مادری زبان میں اچھے ادب کی فراہمی ہے یہ ادب محض بچوں کی درس و تدریس کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح طبع اور ان کے فطری رجحانات کی نشوونما کے لئے بھی ہوتاہے۔ بچوں کے ادب کو ان اقدار اورخصوصیات کا حامل بھی ہوناچاہئے جو کسی زبان کی نظم و نثر کو ادب کا درجہ بخشی ہیں ان میں خیال کی رفعت، جذبہ کی صداقت، زبان کی لطافت اور بیان کا حسن شامل ہے۔ کوئی بھی تحریر جو دل کو چھولینے والی کیفیت اور تاثیر سے محروم ہو وہ ادب میں شامل نہیں ہوسکتی۔ بچوں کی جمالیاتی حس کی تسکین، ان کی تربیت اور نشوونما ان کا بنیادی مقصد ہوناچاہئے۔ ادب کے زریعہ بچوں کی ذہنی تربیت ایک نہایت اہم فریضہ ہے جس پر بد قسمتی سے اردو زبان کے ادیبوں کی توجہ کم ہے۔ ہندوستان میں بچوں کی تعداد ۱۵۸؍ ملین سے زائد ہے جبکہ  پاکستان میں ۵؍کروڑ سے زائد بچے ہیں مگر شومئی قسمت کہ ان میں سے بڑی تعداد تعلیم، صحت، بنیادی ضرورتوں اور حکمرانوں کی توجہ سے محروم ہے۔ دوسری جانب والدین کی توجہ اور تربیت میں کمی، ناقص تعلیمی نصاب اور میڈیا نے بچوں کو ادب سے نہ صرف دور کر دیا بلکہ انٹرنیٹ اور موبائل نے ان کی ذہنی آسودگی ختم کرکے انہیں بے چینی کی طرف دھکیل دیا ہے  جو یقینی طور پر ایک خطرناک صورتحال کی جانب اشارہ ہے۔ 
 غور طلب ہے کہ آج کے بیشتر ادباء  و شعراء سے جب بچوں کے ادب کے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو وہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے جبکہ وہ اس بات کا کئی بار اقرار کر چکے ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی ادبی صلاحیت بچوں کے رسائل و ادب کے مطالعہ سے پروان چڑھی ہے۔ اقبال ، اسماعیل میرٹھی، صوفی تبسم، احمد ندیم قاسمی، محسن احسان، خاطر غزنوی، میرزا ادیب، سید نظر زیدی، خالد بزمی، عزیز اثری اور ایسے کئی ناموں کی کہکشاں آج بھی ادیبوں کو ادب اطفال تخلیق کرنے کی ترغیب دے رہی ہے جو  ہمارے لئے روشنی کا استعارہ تھے۔ 
 نسل نو کی تعلیم و تربیت کے نقائص  ہمیں معاشرے کی بگڑتی صورتحال اور عدم استحکام پر منتج ہوتے دکھائی دے رہے  ہیں لہٰذا ایک اہم سماجی ذمہ داری کے طور پر آج کے تمام بڑے ادیبوں  کو  بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر متوجہ ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ادب اطفال تخلیق کرنے والوں کی تربیت کرنے کا کوئی پلیٹ فارم فراہم کریں جس پر وہ مسلسل بچوں کے ادب سے بھی جڑے رہیں اور معاشرے کے سدھار اور نسل نو کی تربیت کے مقصد سے تخلیق ِ ادبِ اطفال میں مصروف رہیں۔  اس حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی ادب تک بچوں کی رسائی آسان بنائی جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ دوسرے ملک کا بچہ کیا پڑھتا اور کیا سیکھتا ہے۔ اسکے علاوہ اس میں عالمی علوم وفنون کی دلچسپی پیدا ہو، قدیم طلسماتی کہانیاں جادو پری ،جادو کی چھڑی وغیرہ کہانیاں آج کے دور کے بچے کو متاثر نہیں کرتیں، وہ  ہر چیز کو حقیقت کے رنگ میں دیکھ رہا ہے۔ انٹرنیٹ نے آج دنیا کو سمیٹ کر صرف ایک کلک کا منتظر بنا دیا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ عالمی ادب سے منتخب فن پارے ترجمہ کی صورت میں بچوں تک پہنچائے جائیں۔ مختصر یہ کہ ادب میں  انہیں ایسی باتیں پیش کی جائیں جن سے ان میں صالح قدریں  پیدا ہو ں اور وہ معاشرے کیلئے سرمایۂ افتخار بن سکیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK