Inquilab Logo

اللہ کے رنگ میں رنگ جائیے!

Updated: November 24, 2023, 12:37 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

یہ قرآن پاک کی ایک آیت کا مفہوم ہے ۔ اس سے مراد اللہ رب العزت کے منشاء کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ یعنی نیک اور مذہب اسلام کی روح کو سمجھنے والے لوگ ہر وقت چاہے جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں بھی ہوں، ایک بامقصد زندگی گزارتے ہیں۔

The color of foreigners is getting darker in our society. Photo: INN
ہمارے معاشرے میں غیروں کا رنگ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ تصویر : آئی این این

اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو جس مشن اور مقصد کے لئے اس عارضی دنیا میں بھیجا ہے، اگر کوئی شخص اس کو سمجھ کر عملی زندگی گزارتا ہے تو اس کی زندگی کی کیفیت اور رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے، بالمقابل اس شخص کے جو الٰہی مشن اور مقصد کو سمجھے بغیر زندگی کی راہوں پر چل پڑتا ہے۔ زندگی کا وہ رنگ جس میں مقصد حیات مضمر ہو، اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی ایک آیت میں انتہائی دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 ’’( آپ کہہ دیں ) ہم نے اﷲ کا رنگ قبول کرلیا ہے اور اﷲ سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتاہے؟ نیز ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں ۔‘‘ (البقرہ:۱۳۸)
  یہاں اللہ کے رنگ سے مراد اللہ رب العزت کے منشاء کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔یعنی نیک اور مذہب اسلام کی روح کو سمجھنے والے لوگ ہر وقت چاہے جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں بھی ہوں ، ایک بامقصد زندگی گزارتے ہیں کیونکہ اس مقصد سے بڑھ کر کوئی اور چیز انسان کی زندگی کا ما حصل نہیں ہوتا۔ ہمارے لئے اس آیت کریمہ میں گرہ میں باندھ لینے والی بات یہ ہے کہ دنیا کا متنوع رنگ و آہنگ چاہے خوبصورتی اور دلکشی کے درجہ کمال تک پہنچ جائے لیکن یہ اس رنگ کے مقابلے میں پھیکا ہی رہے گا جو الوہیت اور عبودیت کے رشتے کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔
  اِس آیت کی روشنی میں ہمارے لئے سمجھنے کی ایک بات اور ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح کسی کپڑے پر کوئی رنگ چڑھا دیا جائے تو وہ رنگ اس کپڑے سے اس طرح مل جاتا ہے گویا وہ رنگ اور کپڑا ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں بلکہ اسی طرح دین کا رنگ ہم پر اس طرح غالب ہونا چاہئے کہ نہ دین ہم سے الگ نظر آئے اور نہ ہم دین سے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج دین کی باتوں کو ہم نے عملاً اپنی ذات سے الگ چیز سمجھ رکھا ہے کہ جب طبیعت میں آتا ہے دین پر عمل کر لیتے ہیں اور جب جی میں آتا ہے دین کا لبادہ اتار کر طاق نسیاں پر رکھ دیتے ہیں ۔یہی فرق ہے پہلے کے مسلمانوں میں اور ہم میں کہ پہلے غیر مسلمین، مسلمانوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر سمجھ لیتے تھے کہ اسلام کی تعلیمات بہت منظم اور محترم ہیں اور اب وہ مسلمانوں کے طرز زندگی کو دیکھ کر یا تو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات انسانیت دشمن ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان خود اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں ۔ اس حالت کی عکاسی علامہ اقبال نے اس طرح سے کی ہے کہ:
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی= کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
 آگے علامہ نے نتیجہ بھی بیان کردیا ہے کہ چونکہ ہم نے بطور وراثت اپنے اکابرین سے سیکھتے ہوئے دین کا رنگ اپنے اوپر غالب نہیں کیا ہےاسی وجہ سے آج قعر مذلت ہمارا ٹھکانہ ہے:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی= ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
 ایک طرف تو ہماری حالت یہ ہے کہ دین کا رنگ ہم اپنے سراپا سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں ، وہیں دوسری طرف ظلم یہ کر رہے ہیں کہ غیر اسلامی اور غیروں کا رنگ اپنے اوپر رفتہ رفتہ گہرا کر رہے ہیں ۔ کیا اب ایسا نہیں ہورہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کھانے پینے سے لے کر اٹھنے بیٹھنے تک اورمعیشت سے لے کر معاشرت تک دوسروں کی نقالی کر رہی ہے اور اس کو اپنے لئے وجہ عزت سمجھ رہی ہے؟ جبکہ حدیث میں صاف طور پر اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ: ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘ (سنن ابو داوٴد)
  یہاں تشبہ کی تعریف کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ دوسروں کے رنگ میں رنگنے سے ہم اپنے آپ کو بچا سکیں ۔ اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ (التنبہ علی ما في التشبہ)
 خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت نے دین کے جس رنگ میں رنگ جانے کی تاکید کی ہے، سب سے پہلے ہمیں اس رنگ کو دوسرے رنگوں سے ممتاز کرنا ہوگا اور پھر مسلسل یہ کوشش کرنی ہوگی کہ کوئی دوسرا رنگ ہمارے دین کے رنگ پر کسی بھی صورت میں غالب نہ آئے۔ ان شاء اللہ اس صورت میں ہمارے دین کا رنگ نکھر کر سامنے آئے گا اور دوسروں پر بھی اپنا اثر چھوڑے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK