Inquilab Logo

ان معاشرتی بیماریوں سےچھٹکاراحاصل کرنےکی کوشش کریں جن میں امریکہ، اسرائیل اورسنگھ پریوارکاہاتھ نہیں

Updated: November 19, 2023, 2:54 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارےملک کے تین چار شہر تو ہماری قوم کی شادیوں کے ولیمے کیلئے ’مشہور‘ ہیں جہاں ولیمے کی دعوت عشاء کے وقت شروع ہوتی ہے اور لگ بھگ فجر پر ختم ہوتی ہے۔ ان شہروں کی بعض شادیوں کیلئے دوتین ولیمے کی دعوتیں بھی ہوتی ہیں۔

Dowry has become a common epidemic here. Photo: INN
ہمارے یہاں جہیز ایک عام وبابن گئی ہے۔ تصویر : آئی این این

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدیوں سے اس کائنات میں دینِ حق کے خلاف ڈھکی چھپی سازشیں اور اُسے زک پہنچانے کیلئے کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ فتنہ پسند عناصر کو توحید کا تصوّر ہی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ آخری کتاب کے نزول کے بعد سے ہماری ایک ہزار سال کی تاریخ بڑی ر وشن و تابناک رہی ہے۔ ہم دھرتی پر رائج سارے نافع علوم کے بلا شرکت غیرے امام تھے، سرخرو تھے۔ ہماری اپنی کئی مملکتیں تھیں اور اُس سے بڑی بات یہ کہ ہماری اپنی زبان، تہذیب و ثقافت کا ہر سُو چرچا تھا۔
 پھر بادشاہت آگئی مگر عروج کا دَور شروع ہونے کے بجائے قوم زوال کی جانب بڑھنے لگی۔ اٹھارہویں ، انیسویں اور بیسویں صدی میں ہماری ہر سُو اور ہر سمت پیش رفت میں تعطل رہا۔اکیسویں صدی میں بھی وہی رفتار جاری ہے۔ گزشتہ صدیاں اس لحاظ سے اہم تھیں کہ پچھلی کئی ساری صدیوں سے کہیں زیادہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اِنہی تین صدیوں میں ہوئی۔ دوسری قوموں نے سٹیلائٹ ٹیکنالوجی وغیرہ کو اپناکر خلاء و فضا پر بھی قبضہ کرلیا۔ کئی قدرتی و مصنوعی توانائیاں حاصل کرلیں اور بدبختی سے اِن تین دہائیوں میں ہمارے یہاں صرف لفّاظی ہوتی رہی اور الزام تراشیاں ۔ اس طرح ہم خود کو اس دھرتی کی معتوب، مظلوم ، بے بس اور بے کس قوم ثابت کرنے میں جُٹ گئے۔اٹھارہویں صدی سے موجودہ صدی تک اپنی غفلت اور کوتاہی پر پردہ ڈالنے کیلئے بڑے بوڑھے اور نوجوان حتّیٰ کہ بچّے بھییہی راگ الاپنے لگے کہ’’یہ ایک سازش ہے، عالمی سازش۔‘‘
’’سازش، سازش‘‘ کے شور میں ہم آج اُن نکات پر گفتگو کریں گے جن میں امریکہ، مغربی طاقتیں ، اسرائیل اور سنگھ پریوار کا ہاتھ نہیں ہے۔ ہمیں چا ہئے کہ ہرمعاملے میں سازش کا پہلو تلاش کرنے کے بجائے، کبھی اُن ساری چیزوں کی لِسٹ تیار کریں جن میں کوئی عالمی، قومی یا چھوٹی بڑی طاقت کی کوئی سازش نہیں ہے۔ ملاحظہ کریں :
 (۱) ہمارے یہاں جہیز ایک عام وبابن گئی ہے۔ اصلاح معاشرہ کے بعض مبلغین بھی جہیز کے لین دین میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ آج ہمارے یہاں سیکڑوں بلکہ ہزاروں بِن بیاہی لڑکیاں رشتے کے انتظار میں بیٹھی ہیں ، جہیز نہ دے پانے کی بنا پر اُن کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں ۔ کئی والد صاحبان اپنی ایک ایک بیٹی کی شادی کا قرض دس دس سال تک ادا نہیں کرپاتے اور دوسری، تیسری، بیٹی کی شادی کا وہ سوچ بھی نہیں پاتے۔ جہیز کی اس وبا کیلئے امریکہ اور سنگھ پریوار ذمہ دار نہیں ہیں۔
 (۲)ہمارے یہاں بعد از خرابیٔ بسیار کریئر کے ضمن میں کچھ بیداری آگئی ہے البتہ ہمارے بیشتر والدین اورسرپرستوں میں ویژن اور صبر دونوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ ویژن کی کمی کیلئے یہ رونا رویا جارہا ہے کہ بیچارے اکثر والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں ، اُنھیں حالات حاضرہ اور ہواکے رُخ کا کچھ پتہ نہیں ہے،ان میں دُور اندیشی بھی نہیں ہے کہ وہ سوچیں کہ اُن کا بچّہ آج سے ۱۰۔۱۵؍سال بعد بلکہ ۵؍سال یا ۳۔۴؍ سال بعد کہاں ہوگا۔ وہ زندگی کی ریس میں پچھڑ تونہیں جائے گا؟ اسی طرح ان میں صبر کی بھی کمی ہے۔ وہ آناً فاناً اپنے بچّے کو کامیاب دیکھناچاہتے ہیں ۔ حالانکہ اسی دور سے دوسری قومیں بھی گزر رہی ہیں مگر وہ زندگی کی جد وجہد کو جھیل رہی ہیں اور ہمیں تو صبر کی بڑی فضیلت بیان کی ہے مگر ہمارے یہاں صبر نہیں ہے، اسلئے ہمارا انجینئر کے لائق بیٹا میکینک بن رہا ہے اور منیجر بننے کی صلاحیت رکھنے والا کلرک۔ کیا اس کیلئے بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس یا سنگھ پریوار ذمہ دار ہیں ؟
 (۳)آج ہمارے ہزاروں طلبہ باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی فیس ادا نہ کرپانے کی بنا پر بڑے کریئر کا خواب نہیں دیکھ پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں فلاحی یا چیریٹیبل ٹرسٹوں کی شدید کمی ہے۔ صرف ممبئی جیسے بڑے شہر کا معاملہ دیکھ لیجئے ، نصف صدی قبل یہاں ہمارے طلبہ کی کفالت کرنے والے لگ بھگ نصف درجن فلاحی ٹرسٹ تھے۔ آج بھی یہ تعداد اُتنی ہی ہے۔ کچھ پُرانے ٹرسٹ بند ہوگئے۔کچھ نئے کھل گئے مگر تعداد وہی ہے اور وہاں بھی اگر ایک طالب علم ایک لاکھ روپے کی رقم کا طلبگار ہے تو اُسے صرف پانچ ہزار روپے دیئے جاتے ہیں ۔ زکوٰۃ، صدقہ جس قوم میں دین کا حصہ ہے وہاں پر یہ لاپروائی اور علم بیزاری؟قوم کے نوجوانوں کی ذہانت زندگی کی اندھیری راہوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے دیکھ رہے ہیں مگر ہمارے اہل ثروت لاتعلق بنے رہتے ہیں۔ ہمارے اس مِلّی بے حِسی کیلئے بھی امریکہ، اسرائیل اور سنگھ پریوار ذمہ دار نہیں ہیں۔ 
 (۴)ہمارے مسلکی اختلافات جگ ظاہر ہیں ، فساد کے ڈر سے ہم متحد بھی ہوجاتے ہیں البتہ موقع ملتے ہی مسلکی اختلافات سے ماحول بگاڑنے، جلسے جلوس منعقد کرنے، فتوے بازی کرنے، اخبارات میں مضامین اور مراسلے لکھنے، پوسٹر اور بینر لگانے، حتیٰ کہ اپنی مساجد پر یہ بورڈ آویزاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے کہ فلاں مسلک والوں کیلئے یہاں داخلہ منع ہے۔ اپنی اس ذہنیت کو تعلیمی کیمپس میں بھی لے جاتے ہیں ۔ تنازعات کیلئے امریکہ ، صہیونی طاقتیں یا سنگھ پریوار ذمہ دار نہیں ہیں۔
 (۵)نکاح جیسی سنّت اب صرف شادی کہلاتی ہے اور اُس میں ولیمے کی بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ صاحب ثروت اپنی دولت بے تحاشہ اُڑاتے ہیں اور اُن کی نقل میں کئی معمولی آمدنی والے بلکہ انتہائی غریب لوگ بھی قرض لے کر ولیمے پر روپے اُڑاتے ہیں۔ ہمارےملک کے تین چار شہر تو ہماری قوم کی شادیوں کے ولیمے کیلئے ’مشہور‘ہیں جہاں ولیمے کی دعوت عشاء کے وقت شروع ہوتی ہے اور لگ بھگ فجر پر ختم ہوتی ہے۔ ان شہروں کی بعض شادیوں کیلئے دوتین ولیمے کی دعوتیں بھی ہوتی ہیں۔ ولیمے کی دعوتوں کے اِن مکمل خرافات کے ہدایات ہمیں وہائٹ ہائوس سے ملی ہیں یا آرایس ایس کے ناگپور ہیڈ کوارٹرز سے؟
 (۶)آج ہمارے یہاں لڑکیاں پڑھ رہی ہیں ، اعلیٰ تعلیم کے محاذ پر کامیابیاں بھی حاصل کر رہی ہیں ۔ لڑکوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے، گھر میں اُنھیں ’خاندان کے چراغ‘کامرتبہ حاصل ہے۔ بدبختی سے آج اکثر یہ چراغ ٹمٹما رہے ہیں ، معاشرے کا توازن بگڑ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہماری قوم کی کچھ لڑکیاں ، سرحد پار نظر دوڑاتی ہیں اور نکل جاتی ہیں اپنی ساری حدیں اور سرحدیں پار کرکے۔ حکومت کے ہفتہ وار گزٹ میں نام/مذہب کی تبدیلی کے صفحات پر شائع ہونے والے نام ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ دینی حلقوں میں بھی اس پرباتیں تو ہوتی ہیں مگر صرف باتیں ۔ کیا اس کیلئے بھی امریکہ اور مغربی طاقتیں ذمہ دار ہیں ؟ 
 (۷)لگ بھگ دو صدی قبل ہمارے اکابرین نے عالمی سطح پر ایک بحث چھیڑی :’’ کون سی تعلیم، دینی یا دنیاوی؟‘‘ اس پر صفحات کے صفحات سیاہ کئے، ہر بار یہ بات بھی کہی گئیکہ علم میں کوئی تفریق نہیں مگر بحث اب بھی جاری ہے۔ اِمام غزالیؒ نے بڑے مؤثر انداز میں بتا دیا کہ علم نافع کیا ہوتا ہے لیکن جدید علم کو جس طرح اپنایا جانا چاہئے تھا، نہیں اپنایا گیا، نتیجے میں قوم پیچھے رہ گئی۔ امریکہ یا صہیونی طاقتیں اس کیلئے کہاں ذمہ دار ہیں ؟
 (۸) ہماری کچھ بستیاں رات رات بھرآباد رہتی ہیں جہاں لڑکے رات بھر اودھم مچاتے ہیں ،کچھ مقدّس راتوں کو’بڑی راتوں ‘ کا نام دے کر یہ لڑکے موٹر سائیکلوں کی ریس کرتے ہیں اور بائیک کا سائلینسر نکال کر اُس کی آواز سے پورے محلے کو سرپر اُٹھالیتے ہیں ۔اپنے پسندیدہ ہیروکی نئی فلم دیکھتے ہیں اور وہاں اپنی موجودگی درج کرانے کیلئے پٹاخے بھی چھوڑ تے ہیں ۔ہمارے نوجوانوں کی ان حرکتوں کیلئے کیا امریکہ ذمہ دار ہے؟
ساتھیو! بلا شبہ کچھ عالمی طاقتیں ہمارے خلاف سازشیں رچتی ہیں مگر ہم ایمانداری سے اُن ساری باتوں کی فہرست تو تیار کرلیں جس کیلئے امریکہ، اسرائیل، مغربی طاقتیں یا سنگھ پریوار ذمہ دار نہیں ہیں ۔ اُن ساری معاشرتی بیماریوں کیلئے ہم اور صرف ہم ذمہ دار ہیں۔ جلسے، جلوس، مارچ اور نعرے بازی میں جتنی اینرجی ہم لگارہے ہیں اس کا کچھ حصہ اِن معاشرتی بیماریوں کو جڑ سے اُکھاڑنے میں بھی لگانے کی ضرورت ہے۔ یہیں سے اُس تحریک کا بھی آغاز ہوگا جس کی بناء پر ہم جدید علوم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سرخرو ہوسکیں گےتاکہ کوئی دوسرا ’غزہ‘ ہمارے یہاں ہونے نہ پائے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK