ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل نے ۶۰ روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کیلئے ’’ضروری شرائط‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔ اب اس حتمی تجویز کو قطر اور مصر جیسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچایا جائے گا۔
EPAPER
Updated: July 07, 2025, 5:20 PM IST | Gaza/Washington/Tel Aviv
ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل نے ۶۰ روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کیلئے ’’ضروری شرائط‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔ اب اس حتمی تجویز کو قطر اور مصر جیسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچایا جائے گا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ میں ۶۰ ؍روزہ جنگ بندی کی شرائط پر راضی ہو گیا ہے۔ انہوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو قبول کر لے کیونکہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پیش رفت کا اعلان اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ اگلے پیر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے قبل کیا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ان کے نمائندوں کی اسرائیلی حکام کے ساتھ ایک ’’طویل اور نتیجہ خیز ملاقات‘‘ ہوئی جس کے دوران اسرائیل نے ۶۰؍ روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کیلئے ’’ضروری شرائط‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس حتمی تجویز کو قطر اور مصر جیسے ثالثوں کے ذریعے حماس تک پہنچایا جائے گا۔ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ جنگ بندی ’’اگلے ہفتے کسی وقت‘‘ ہو سکتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو آئندہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے جہاں ان کی صدر ٹرمپ سے غزہ اور ایران کے ساتھ ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر بھی بات چیت متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ نسل کشی پرخاموشی،آئی ایس اے نےاسرائیلی سوشیالوجیکل سوسائٹی کی رکنیت معطل کی
قطری تجویز اور قیدیوں کا تبادلہ
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، قطر نے اسرائیل کو ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس میں ۶۰؍ روزہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ شامل ہے۔ اس تجویز کے تحت جنگ بندی کے پہلے دن ۸؍ اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا جبکہ پچاسویں دن مزید دو زندہ قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ منصوبے میں ۱۸؍ اسرائیلی یرغمالوں کے باقیات کی تین قسطوں میں واپسی بھی شامل ہے۔ یہ مجوزہ فریم ورک امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے ایک پہلے کے منصوبے سے مشابہت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کے ڈاکٹروں کی داستان پر مبنی دستاویزی فلم’غزہ : ڈاکٹرس اَنڈر اٹیک‘
اسرائیل کے وزیر خارجہ کا ’’موقع سے فائدہ اٹھانے‘‘ کا مطالبہ
ٹرمپ کے اعلان کے بعد، اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈیون سعار نے بدھ کو غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کو آزاد کرانے کے کسی بھی موقع کو نہ گنوانے کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ کے بیان کا براہ راست ذکر کئے بغیر، سار نے بدھ کو کہا کہ حکومت اور آبادی کی ایک بڑی اکثریت یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے منصوبے کے حق میں ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ اگر موقع ملے تو اسے گنوانا نہیں چاہئے!
اسرائیلی فوج کا موقف اور جنگ بندی کی کوششیں
اے ایف پی کی جانب سے رابطہ کرنے پر، اسرائیلی فوج نے کہا کہ ان کے پاس مخصوص رپورٹس پر تبصرہ کرنے کے لیے کافی معلومات نہیں ہیں، لیکن انہوں نے زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق حماس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، اور شہری نقصان کو کم کرنے کیلئے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ منگل کو فوج نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں اس کی افواج نے غزہ بھر میں کارروائیاں بڑھا دی ہیں، درجنوں دہشت گردوں کو ختم کیا ہے اور سینکڑوں دہشت گردانہ بنیادی ڈھانچے کے مقامات کو ختم کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جیف بیزوس شادی اور اسرائیل امیزون کی ٹیکنالوجی سے فلسطینیوں کے قتل میں مصروف
حماس اور اسرائیل کے اختلافات
بالواسطہ مذاکرات سے واقف ذرائع کے مطابق، جنگ بندی کو ختم کرنے کی شرائط اور غزہ سے اسرائیل کے انخلاء کی تجویز کے حوالے سے کلیدی اختلافات برقرار ہیں۔ حماس نے بارہا کہا ہے کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو جنگ کے خاتمے، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے رہا کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم، نیتن یاہو نے ان شرائط کو مسترد کر دیا ہے اور اپنے اضافی مطالبات پر زور دیا ہے جن میں فلسطینی مزاحمتی گروپس کو غیر مسلح کرنا شامل ہے۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ غزہ میں تقریباً ۵۰؍ یرغمال اب بھی زیر حراست ہیں، جن میں سے تقریباً ۲۰؍ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ دوسری جانب، فلسطینی اور اسرائیلی انسانی حقوق گروپوں کے مطابق، ۱۰؍ ہزار ۴۰۰؍ سے زائد فلسطینی اس وقت اسرائیل میں قید ہیں جہاں وہ تشدد، بھوک اور طبی لاپرواہی کا سامنا کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: قانون سازوں کا یوکرین کی طرز پر ’’غزہ فیملی اسکیم‘‘ کا مطالبہ
۱۵۰؍ سے زیادہ بین الاقوامی خیراتی اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کے ایک متنازع اسرائیلی اور امریکی حمایت یافتہ نظام کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس کی وجہ افراتفری اور خوراک کی تلاش میں فلسطینیوں کے خلاف جان لیوا تشدد ہے۔ اس مطالبہ سے قبل کم از کم ۱۰؍ فلسطینی جاں بحق ہوئے جو شدید ضرورت کی خوراک کی تلاش میں تھے۔ اس دوران، جنوبی غزہ کے خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم ۳۷ افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز نے اس سے پہلے خبردار کیا تھا کہ ان کا ملک یمن سے داغے گئے میزائل کا بھرپور جواب دے گا۔ یہ میزائل حملہ، ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ ۱۲؍ روزہ جنگ کے اختتام کے بعد پہلا حملہ تھا۔
اسرائیل اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں "نسل کشی" کر رہا ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک ۵۶؍ ہزار ۶۰۰؍ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد، غزہ حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ، تقریباً دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ واشنگٹن اپنے دیرینہ اتحادی اسرائیل کو سالانہ ۸ء۳ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے، امریکہ نے غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں اور ہمسایہ ممالک میں جنگوں کی حمایت میں ۲۲ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ سینئر امریکی حکام کی جانب سے غزہ میں زیادہ شہری ہلاکتوں کے حوالے سے اسرائیل پر تنقید کے باوجود، واشنگٹن نے اب تک کسی بھی ہتھیاروں کی منتقلی پر شرائط عائد کرنے کے مطالبوں کو نظر انداز کیا ہے۔