لاکھ کوششوں کے باوجودپارٹی خود کے اندرجارحیت بھر نے میں کامیاب نہیں ہوپا رہی ہےحالانکہ اس کے اندر جوش ہے ۔ہرالیکشن کے موقع پر
کانگریس بی جےپی کے مضبو ط حریف کےطورپر سامنے تو آتی ہےلیکن زعفرانی پارٹی کی جارحیت ہر مرتبہ اس کے جوش پر غالب آجاتی ہے۔یعنی
حالات تقاضا کررہے ہیںکہ پارٹی اپنے اندر جوش کے ساتھ جارحیت بھی پیدا کرے بصورت دیگرجوش تو وقتی طورپرچھوٹی پارٹیوں میں بی نظرآ جاتا ہے
ملک کی سب سے پرانی پارٹی کی حیثیت سے کانگریس کی کارکردگی پر یوںتو۲۰۱۴ء کے بعدسے ہی سوالات اٹھنے لگے تھے اور تنظیمی سطح پر اس میں بڑی تبدیلیوںکے مطالبات ہونے لگے تھے لیکن اب تک یہ صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی کہ کانگریس کے لیڈران ایکدوسرے کو نشانہ بنانے کے درپے ہوجائیں۔ پارٹی میں یادت کا بحران بھی گزشتہ کچھ برسوں میں کھل کر سامنے آیا ہے لیکن حالات یہاں تک نہیں پہنچے تھے کہ پارٹی میں ایک لیڈر دوسرے کی صلاحیت کو چیلنج کردے ۔کانگریس میںیہ ہوا ہےاورچونکہ یہ ہوا ہے اس لئے اس کی حیثیت ونوعیت کو اب صرف پارٹی کی اندرونی جنگ یا داخلی اختلافات کے طورپر نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اسے ایک ایسے مسئلے کےطورپر دیکھا جائے گا جو بہت سنگین ہوچکا ہےاورپارٹی کے حق میں جس کے نتائج اس سے بھی سنگین ہوسکتے ہیں۔ جو باتیں گزشتہ چند دنوںسےکانگریس کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں ان میں سے پہلی کپل سبل کا انڈین ایکسپریس کو دیا گیا انٹرویو ہے جس میں انہوں نے بہار الیکشن میں پارٹی کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کی زمینی کارکردگی پر تنقید کی تھی۔ بعدازاں انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ پھرپارٹی کی قیادت اور صلاحیتوں پرسوال اٹھائے۔ یہاں انہوں نے کہا کہ کانگریس اب ایک با اثراپوزیشن نہیں رہ گئی ہے۔ کانگریس کے ایک اور سینئرلیڈر اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے کپل سبل کی تائیدکرتے ہوئےگجرات ، مدھیہ پردیش ، اتر پردیش اور کرناٹک میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کہا کہ زمین پر کانگریس کا اب تنظیمی وجود باقی نہیں رہ گیا ہے اور پارٹی کافی حد تک کمزور ہوچکی ہے۔
ان دونوں سینئرلیڈروں کے تبصروں پرکانگریس کے ترجمان ادھیر رنجن چودھری نے جو تیو ر اپنایا اس کی الگ نوعیت ہے اور اس سے انداز ہ ہوتا ہےکہ پارٹی کےد اخلی اختلافات اب صرف بات چیت سے حل نہیں کئے جا سکتے بلکہ اس کیلئے اعلیٰ کمان کو دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ادھیر رنجن چودھری نے مذکورہ دونوں سینئر لیڈروں کے تبصروں پر رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ جنہیں پارٹی سے اختلا ف ہےوہ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔انہوں نے کپل سبل کو مشورہ دیتےہوئے کہا کہ وہ اے سی روم سے باہر نکلیں اورانتخابی میدان میں اتریں۔ پارٹی کو قانونی مدد فراہم کریں۔ انہوں نے واضح طورپر کہا کہ جنہیں لگتا ہےکہ کانگریس ان کیلئے مناسب پارٹی نہیں ہےتو وہ دوسری پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں یا اپنی الگ پارٹی بھی بنا سکتے ہیں لیکن انہیں ایسی پریشان کن سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونا چاہئے جن سے پارٹی کا اعتبار مجروح ہوتا ہو۔ ان بیانات اور جوابی بیانات سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہےیہ صرف داخلی اختلافات کا معاملہ نہیں ہے۔بات اب برا ہ راست کانگریس کے تنظیمی وجود پر تنقید تک پہنچ چکی ہے اور یہ تنقید بھی پارٹی کے سینئر لیڈرکررہے ہیں ۔ اس سے بنیادی طورپرجوباتیں سامنے آتی ہیں ان پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہےتاکہ معاملے کے اہم پہلو نمایاں ہوجائیں۔
پہلی بات یہ کہ جہاں تک کانگریس کے زمینی وجود کا تعلق ہے تو یہ واقعتاً کمزور ہوچکا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جن میں ایک بڑا سبب بی جے پی کے مقابلے اس کا محدود سوشل میڈیا نیٹ ورک ہے۔آج پارٹیاں زمینی سطح پر خود کو سوشل میڈیا نیٹ ورک کےذریعےمضبوط و متحرک رکھتی ہیں اور اس میںکوئی دو رائے نہیں ہےکہ بی جے پی اس میں سب سے زیادہ فعال ہے ۔ یہ نیٹ ورک اگر کمزور پڑتا ہے تو نوجوانوں کو اپیل کرنا کسی بھی پارٹی کیلئے انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ یہاں بی جےپی کےآئی ٹی سیل سے وابستہ تنازعات اورپروپیگنڈہ سیاست کو کچھ دیر کیلئے نظر انداز کریں اور پارٹی کے اس شعبہ کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو یہ زمینی سطح پر ہلچل پیدا کرنے کیلئے کافی نظر آتا ہےجس سے نوجوان راغب ہوتے ہیں۔ایک پورا ماحول تیا ر ہوتا ہے ،پھرپارٹی اور پارٹی کی باتیں موضوع بحث بنتی ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے بعدسے ہم دیکھ رہے ہیں بی جےپی ایسا ماحول تیار کرنے میں مسلسل کامیاب ہے۔متنازع امور کی سیڑھیاں بناکربھی اگر بی جےپی اوپر چڑھنے میں کامیاب ہورہی ہے تواس کی وجہ صرف اس کی زمینی کارکردگی ہے جس کیلئے وہ سوشل میڈیا کو بنیاد بناتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ بی جے پی کے مقابلے کانگریس کی قیادت اس دم خم سے عاری نظر آتی ہے جو ایک پارٹی کو مضبوط پارٹی کی شناخت دلاتی ہے۔ ۲۰۱۴ء تک کانگریس کی قیادت کا یہ کمزور پہلونمایاں ہونا شروع ہوا اورآج یہی پہلو غالب آچکا ہے۔ کانگریس قیادت کے نمائندہ چہرہ سے محروم ہے۔ گاندھی قیادت پر ویسے بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں ،ایسے میں پارٹی اگرسونیا گاندھی ، راہل اور پرینکا پرہی تکیہ کر رہی ہے تو اس سے پارٹی کی مجبوریوںکو سمجھا جاسکتا ہے۔حالانکہ پھر بھی یہاں تین چہرے ہیں جبکہ حریف پارٹی کا ایک ہی چہر ہ ہے لیکن وہاںصورتحال پوری طرح مختلف ہے۔وہاں اس چہرے سے کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ اسے زبر دست عوامی مقبولیت حاصل ہے اوراس کے نتائج بھی پارٹی کے حق میں برآمد ہورہے ہیں۔ یہاں یعنی کانگریس میں تینوں چہروں سے پارٹی میں اندرونی اختلافات ہیں۔اس کا سبب ان چہروں کی غیر مقبولیت نہیں ہے بلکہ یہ کہ ان سے پارٹی کے حق میں نتائج برآمد ہورہے ہیں حالانکہ محنت یہ چہرےبھی جی توڑ کررہے ہیں۔اب اسے چہروں کامسئلہ کہا جائے یاکچھ اور لیکن معاملہ کانگریس کیلئے یہیں سے خراب ہونا شروع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اندرون پارٹی سے گاندھی قی zادت کے خلا ف آواز اٹھ رہی ہے جبکہ مودی اور شاہ قیادت کے خلاف اپوزیشن آواز بلند کررہا ہے۔وہاں یعنی بی جے پی میں یہ صورتحال پیداہوگئی اور اندرو ن پارٹی سے مودی شاہ قیادت کے خلاف ناراضگی سامنے آنے لگے تو صو رتحال وہاں بھی کانگریس کی طرح ہی ہوجائے گی ۔
تیسری بات یہ کہ کانگریس پارٹی میں جارحیت کا فقدان ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجودپارٹی خود کے اندرجارحیت بھر نے میں کامیاب نہیں ہوپا رہی ہےحالانکہ اس کے اندر جوش ہے ۔ہرالیکشن کے موقع پرکانگریس بی جےپی کے مضبو ط حریف کےطورپر سامنے تو آتی ہےلیکن زعفرانی پارٹی کی جارحیت ہر مرتبہ اس کے جوش پر غالب آجاتی ہے۔یعنی حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ پارٹی اپنے اندر جوش کے ساتھ جارحیت بھی پیدا کرے بصورت دیگرجوش تو وقتی طورپرچھوٹی پارٹیوں میں بھی نظر جاتا ہے۔ سیاسی جارحیت ایک مستقل صفت ہےجبکہ جوش عارضی۔ جارحیت پارٹی کو زمین سے بلندی کی طرف لے جاتی ہے ۔ جوش انتخابات کے وقت نظر آتا ہے اور انتخابات کے بعد ختم ہوجاتا ہےجبکہ جارحیت الیکشن کے وقت بھی موجود رہتی ہے اور الیکشن کے بعدبھی ۔ بی جے پی کا مزاج جارحانہ ہےجبکہ کانگریس کا دفاعی ۔ آج نوجوان جارحیت کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ وہ دفاعی مزاج کے حامل ہیں لیکن یہاںخیال رہےکہ جارحیت تعمیری ہونی چاہئے ، تخریبی نہیں۔یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو راقم کی نظر میں کانگریس کی خامیوںکے اسباب ہیں۔کانگریس کیلئے دوبارہ ملک کا اقتدار سنبھالناآج کےدور میں انتہائی مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ بی جےپی کے مقابلے میںاس کی حیثیت اب صرف اپوزیشن بلکہ کمزور اپوزیشن کی رہ گئی ہے۔دیکھا یہ جانا ہےکہ کانگریس فی الوقت اپنے داخلی مسائل سے کیسے نپٹتی ہے۔سونیا گاندھی نے پارٹی پر تنقید کرنے والے لیڈروںکی دلجوئی کیلئے انہیں اپنی تین کمیٹیوں(قومی سلامتی ،معیشت اور امورخارجہ پر کانگریس کو مشورہ دینے والے پینل)میں شامل کیا ہےلیکن یہ عارضی کارروائی ہے۔مسائل کا حل نہیں ہے۔پارٹی کو مسائل سے نکالنے کیلئے بھی جارحانہ اقدام کی ضرورت ہے۔ ایسے کسی خاموش اقدام سےسیاسی جارحیت کے اس دور میں پارٹی اپنا وجود باقی نہیںرکھ سکتی۔ایسے میں ضروری ہے کہ پارٹی اپنا احتساب کرے اور اس پر عمل بھی کرے ۔