Inquilab Logo

بجرنگ دل پر پابندی کا کانگریس کا وعدہ اور بی جے پی کا خوف

Updated: May 22, 2023, 6:00 PM IST | ravi kant | Mumbai

بجرنگ دل کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس۲۲؍ لاکھ رضا کار، ۲۵؍ لاکھ سے زائد ممبر اور ملک بھر میں ۲۵۰۰؍ سے زائد اکھاڑے ہیں ،جہاں بجرنگیوں کو ’تربیت‘ دی جاتی ہے۔ یہ تمام لوگ بی جے پی کیلئے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں، ایسے میں اگر اس پر پابندی عائد ہوتی ہے تو سڑک پر ہونے والی بی جے پی کی ’سرگرمیاں‘ ٹھپ پڑ سکتی ہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

کرناٹک میں انتخابات کے دوران بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی سب سے اہم اور مضبوط مسائل کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اسی بنیاد پر انتخابی سروے میں جو نتائج نظر آئے، اس میں بی جے پی مخالف لہر اور کانگریس کی  دکھائی دے رہی تھی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر اس دوران ایک اور اہم بات ہوئی۔وہ یہ کہ بی جے پی نے تمام مسائل کو چھوڑ کر کانگریس کے منشور میں شامل بجرنگ دل پر پابندی لگانے کے وعدے پر فوکس کیا اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی پوری کوشش کی۔ خود وزیر اعظم مودی نے بجرنگ دل کو بجرنگ بلی سے جوڑ کر انتخابی مہم کو تقریباً فرقہ وارانہ جنون میں بدلنے کی مہم چلائی۔ بنیادی مسائل اوربی جے پی حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کا یہ نریندر مودی کا جانا پہچانا نسخہ ہے۔ ایسے میںیہ سمجھنا ضروری ہے کہ کانگریس نے بجرنگ دل پر پابندی لگانے کا وعدہ کیوں کیا ہے؟
 بجرنگ دل ایک خود ساختہ ہندوتوادی تنظیم ہے۔  دوسری بہت ساری تنظیموں کی طرح یہ بھی آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔ آر ایس ایس اپنے قیام (۱۹۲۵ء) ہی سے ’ورن نظام‘ اور ذات پات کی بنیاد پر ملک کو’ ہندو راشٹر‘ بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ آر ایس ایس کو ہندوستان کے آئین اور جمہوریت پر کبھی بھروسہ نہیں رہا۔انہیں توقع تھی کہ مسلم لیگ کے پاکستان کی طرح  انہیں بھی برطانوی حکومت سے ایک’ ہندو راشٹر‘ مل جائے گا، لیکن آزادی کے بعد، بالخصوص جواہر لال نہرو اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر   کے افکار اور کوششوں سے، ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور آئین  پر لوگوں کا اعتماد مضبوط ہوا۔ نئے ہندوستان نے نظام کو بدلنے یا نیا نظام تیار کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اس کے بعد آر ایس ایس نے اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کیلئے مختلف تنظیمیں بنائیں۔
 ۱۹۵۱ء میں قائم ’جن سنگھ‘ کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کا آر ایس ایس کا خواب پورا نہیں ہوا۔ اس کے بعد آر ایس ایس کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ بڑھتی ہوئی جمہوریت میں اقتدار تک پہنچنے کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نظروں میں پسماندہ ذاتیں اس میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ سےآٹھویں دہائی میں آر ایس ایس نے دلتوں اور ’شودروں‘ کو اپنے ساتھ جوڑنے کا تجربہ کیا۔ آر ایس ایس کیلئے ضروری تھا کہ وہ ایک ہندو راشٹر بنانے کیلئے سماجی جمود کو برقرار رکھتے ہوئے دلتوں اور شودروں کو ہندو بنائے۔ملک میں قائم جمہوری نظام کے ذریعہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کی مضبوط ہوتی پوزیشن اور سماجوادی سیاست کے عروج سے آر ایس ایس بہت زیادہ فکر مند تھا۔ دراصل سماجوادی سیاست میں پسماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کا کردار مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اگر پسماندہ ذاتیں سماجی اور سیاسی طور پر بااختیار ہونے لگتیںتو ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے ’ذات پات‘ کے نظام پر یقین رکھنے والی طاقتوں کی بالادستی کو ایک بڑا چیلنج ملتا۔ اسلئے آر ایس ایس نے شودروں اوراو بی سی سے وابستہ لوگوں کو  ’دھرم اور آستھا‘ کی بنیاد پر متحد کرنے اور اُن کی طاقت کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بجرنگ دل جیسی تنظیم کی بنیاد اسی خیال کے تحت رکھی گئی تھی۔
 جن سنگھ کی جگہ پر ۱۹۸۰ء میں قائم کی گئی بی جے پی نے ’گاندھی وادی سوشلزم‘ کو اپنا آئیڈیل بنایا۔ اس خیال کی بنیاد پر سنگھ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود بی جے پی اور آر ایس ایس نے ایک حکمت عملی کے تحت رام مندر تحریک کو اپنا سیاسی ایجنڈا بنایا اور اسی دوران بجرنگ دل کا قیام یکم اکتوبر۱۹۸۴ء کو ایودھیا میں وشو ہندو پریشد کے ’یوتھ وِنگ‘ کے طور پر کیا گیا۔ پسماندہ ذات سے آنے والے مضبوط کسان ونے کٹیار کو اس کا صدر بنایا گیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کی قیادت  اعلیٰ ذاتوں اور خاص کر برہمنوں کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن   ’یوتھ ونگ‘ کی کمان ایک پسماندہ ذات کے حوالے کر دی گئی۔
 جیسے جیسے رام مندر تحریک آگے بڑھ رہی تھی، بجرنگ دل پھیلتا جا رہا تھا۔ وشو ہندو پریشد کی کارسیوا مہم میں بجرنگ دل  پیش پیش تھا۔ زیادہ تر پسماندہ ذاتوں سے آنے والے نوجوانوں نے ایودھیا کا سفر کیا۔ بابری مسجد کے انہدام میں بظاہر ان کا بڑا کردار تھا۔یہ بجرنگی ہی تھے جو کار سیواکیلئے بھوک، پیاس اور لاٹھی چارج کے شکار ہوئے۔ اس کا سیاسی فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا۔ ریاستوں کے ساتھ ہی مرکز میں بھی اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جیسے جیسے بی جے پی اقتدار میں پہنچی، بجرنگ دل کی قیادت بھی اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھ میں پہنچ گئی۔ پسماندہ ذاتوں سے آنے والے نوجوانوں کو اب بھی ہنگامہ آرائی اور تشدد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اقتدار کی ’ملائی‘ کوئی اور کھاتا ہے۔
 بجرنگ دل کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اس کے۲۲؍ لاکھ رضا کار اور ۲۵؍ لاکھ سے زائد ممبر ہیں۔ ملک بھر میں اس کے ۲۵۰۰؍ اکھاڑے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان اکھاڑوں کے ذریعے آر ایس ایس دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کا برین واش کرتا ہے۔ اکھاڑے عام طور پر دلت اور پسماندہ علاقوں میں واقع ہیں۔ اکھاڑہ میں کشتی کے بعد اجتماعی کھچڑی کی دعوت ہوتی ہے۔ اس میں آر ایس ایس کے’بھیا جی‘  قصے اورکہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ان کہانیوں میں بھیڑ بکریوں کا چرواہا دلت یا پسماندہ سماج کا ہیرو  ہوتاہے جو کشتریہ شہزادی کو کسی مسلم حکمران یا جاگیردار کے چنگل سے بچانے کیلئے اپنے آپ کو قربان کردیتا ہے۔ ان کہانیوں کے ذریعے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے لوگوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کی جاتی ہے اور انہیں ہندوتوا کے دفاع میں تشدد کیلئے اکسایا جاتا ہے اور قربانی دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
 بجرنگ دل پر الزام ہے کہ اسے قانون پر بھروسہ نہیں ہے۔ دھرم اور ثقافت کی خود ساختہ محافظ، اس تنظیم کو کئی بار مجرمانہ اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات کا سامنا  رہا ہے۔ بجرنگیوں کو سرعام لاٹھیاں  اور تلوارلہراتے اور  عام شہریوں کو مارتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔۱۴؍ فروری یعنی ویلنٹائن ڈے کو پارکوں اور کالج کیمپس میں محبت کرنے والے لڑکے اور لڑکیوں کو سرعام مارتے ہیں اور ڈنک کی چوٹ پر اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑکوں کو راکھی باندھنےکیلئے لڑکیوں کو مجبور کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پولیس بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ کئی بار پولیس ان کے ساتھ تعاون تک کرتی نظر آتی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے مضبوط سیاسی نعرے ’جئے شری رام‘ کو بجرنگیوں نے ہی زیادہ بلند کیا ہے۔
 قابل ذکر ہے کہ بجرنگ دل ان پانچ تنظیموں میں سے ایک تھی جن پر ۱۹۹۲ء میں نرسمہا راؤ حکومت نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد پابندی لگائی تھی۔۲۰۰۶ء میں، بجرنگ دل کا نام دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے اس وقت روشنی میں آیا جب۵؍ اور۶؍ اپریل کو مہاراشٹر کے ناندیڑ میں آر ایس ایس کے ایک نمائندے کے گھر پر بم بناتے ہوئے ۲؍ بجرنگی کارکن مارے گئے۔ بجرنگی ’گئو رکشا‘کے نام پر بھی تشدد میں معاملات میں ملوث رہے ہیں۔۱۱؍جولائی۲۰۱۶ء کو گجرات کے سومناتھ ضلع کے اونا میں۴؍ دلت نوجوانوں کو وحشیانہ طریقے سے برہنہ کرنے اور ان کی پٹائی کرنے والے مبینہ ’گئو رکشکوں‘ کا تعلق بجرنگ دل سے ہی تھا۔ ان دلت نوجوانوں کا ’قصور‘ صرف یہ تھا کہ وہ مری ہوئی ایک گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ اس کے بعد جگنیش میوانی کی قیادت میں گجرات میں ایک بڑی دلت تحریک اٹھی۔
 ۳؍ دسمبر۲۰۱۸ء کو بلند شہر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کیلئے ایک ہجوم نے ’گئورکشا‘ کے نام پر ’سیانا کوتوالی‘ کو گھیر لیا۔ اس فرقہ وارانہ جنون کو روکنے کی کوشش کرنے والے انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کو قتل کر دیا گیا۔ ان قاتلوں میں بجرنگ دل کےکارکنان کے ملوث ہونے کے الزامات تھے۔ حیرت اور شرم کی بات ہے کہ ضمانت پر باہر آنے والے ان قاتلوں کا بی جے پی لیڈروں نے پھول، ہار کے ساتھ استقبال کیا۔قتل پر جشن منانے والے اور قاتلوں کا استقبال کرنے والے بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈران کو بجرنگ دل پر پابندی  سے متعلق کانگریس کے وعدے پر تلملا اُٹھنا فطری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK